پاک بھارت جنگ بندی معاہدے کی تجدید

209

گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنر(ڈی جی ایم اوز) نے ہاٹ لائن پر رابطہ کیا اور 2003ء کے فائر بندی معاہدے پر مکمل عمل در آمد کی یقین دہانی کرائی گئی۔ دونوں طرف سے بڑی اچھی اچھی اور دوستانہ باتیں کی گئیں لیکن مذکورہ معاہدہ تو 15 سال پہلے ہوا تھا اس پر اب تک کتنا عمل در آمد ہوا اوراس کی پاسداری کی گئی، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بھارت کی طرف سے آئے دن کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ عام ہے۔ گو کہ بھارت بھی پاکستان پر یہی الزام عاید کرتا ہے لیکن پاکستان کی حدود میں جو جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ زیادتی کس کی طرف سے ہوتی ہے۔ حیرت تو اس پر ہے کہ جو بین الاقوامی مبصرین سرحد کے دونوں طرف تعینات ہیں وہ کس مرض کی دوا ہیں۔ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران میں بھارتی فائرنگ سے پاکستان کی طرف 100 سے زاید افراد شہید ہوچکے ہیں۔ کوئی بھی سرحد پر آباد افراد کے مکانات اور اسکول دیکھ سکتا ہے جن پر بھارتی گولیوں کے نشانات ہیں۔ کنٹرول لائن یا ورکنگ باؤنڈری پر آباد شہریوں پر خوف کا عالم طاری رہتا ہے کہ کیا پتا کب بھارتی فوجی فائر کھول دیں۔ ان علاقوں میں کھیتی باڑی بھی دشوار ہوگئی ہے۔ بھارت پاکستانی حدود میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ بھی کرچکا ہے گو کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا لیکن کیا یہ 2003ء کے جنگ بندی معاہدے کے مطابق تھا۔ بہر حال اب اگر جنگ بندی معاہدے کی تجدید ہوئی ہے تو اسے خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے اس توقع کے ساتھ کہ کسی بہانے پھر کوئی شرارت نہ کی جائے۔ پڑوسی خواہ کیسا ہی ہو، پڑوس بدلا نہیں جاسکتا۔ دونوں ممالک کشیدگی ختم کرکے امن سے رہیں تو یہ دونوں کے عوام کے لیے بہتر ہے۔ مذکورہ فیصلے کے بارے میں کہاگیا ہے کہ سرحد کے ساتھ رہنے والے لوگوں کو مشکلات سے بچانے کے لیے دو طرفہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں طرف سے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا اور کسی بھی معاملے پر فوجی افسران کے درمیان فلیگ میٹنگز کی جائیں گی، ہاٹ لائن رابطوں کے نظام کو استعمال کرکے ہر مسئلے کا حل نکالا جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی دوست نہیں بن سکتے لیکن ایسی دشمنی تو ترک کرسکتے ہیں جس سے دونوں طرف کے عوام سکون کا سانس لے سکیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جس درندگی کا مظاہرہ کررہاہے اس پر بھی سنجیدہ بات ہونی چاہیے کیونکہ جب تک مظلوم کشمیریوں پر مظالم ختم نہیں ہوں گے اور کشمیر کے بین الاقوامی فیصلے کو لاگو نہیں کیا جائے گا، کنٹرول لائن پر بھی کشیدگی جاری رہے گی۔