آخر کب تک؟

345

عزت مآب عادل اعظم ثاقب نثار اوکاڑا کے معذور افراد کو سرکاری ملازمتوں میں کوٹا نہ دینے کے خلاف کیس کی سماعت فرما رہے تھے کہ معذور افراد کے وکیل نے کہا کہ ایک معذور کو سیکورٹی گارڈ نے روکا ہوا ہے۔ چیف صاحب! پروٹوکول کے بغیر عدالت سے باہر آئے، معذور کی بپتا سنی اور انصاف کی یقین دہانی کرائی، ان کی خوش کن اور خوش آئند باتیں سن کر احاطہ عدالت، چیف ترے جاں نثار بے شمار کے نعروں سے گونج اُٹھا اور اس کی بازگشت میں سابق چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار کی شبہہ اُبھری۔ چودھری صاحب نے اپنے دور اقتدار میں منو بھیل نامی ایک شہری کی فریاد پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ 22 ستمبر 2007ء کو اس کی پہلی پیشی ہوئی۔ منو بھیل کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک وڈیرے کی خود ساختہ جیل سے فرار ہوگیا تھا، وڈیرے نے سزا کے طور پر اس کے ماں باپ اور اہل و عیال کو یرغمال بنالیا تھا۔ منو بھیل کئی برس سے پریس کلب حیدر آباد کے سامنے احتجاجی دھرنا دیے ہوئے تھا مگر کسی نے اس کے دھرنے پر توجہ نہ دی کہ یہ ایک عام شہری کا دھرنا تھا اور پھر….. ایک دن اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار نے اس دھرنے پر کان دھرے یوں اس کا دھرنا اختتام کو پہنچا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لے کر 22 ستمبر 2007ء کو مقدمے کی پہلی سماعت کی اور آئی جی سندھ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کردیا مگر کیا ہوا؟؟؟۔ چیف جسٹس صاحب اخبارات کی زینت بن گئے ان کے ازخود نوٹس کی خوب واہ! واہ! ہوئی اور پھر….. ٹائیں! ٹائیں! فش ہوگیا۔
26 نومبر 2007ء کی پیشی سنادی گئی وہ دن اور آج کا دن 26 نومبر کبھی نہ آیا۔ موجودہ چیف جسٹس بھی ازخود نوٹس کے معاملے میں اکثر اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں ان کا نام گونجتا رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پیشی در پیشی کا یہ ابلیسی چکر کب تک چلتا رہے گا۔ غور طلب امر یہ بھی ہے کہ قانون کی لغت میں انصاف کے کیا معنی درج ہیں اور جج صاحبان کی نظر میں پیشی کا کیا مفہوم ہے؟۔ عام آدمی تو یہی سمجھتا ہے کہ عدالتی پیشی کا مقصد مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھانا ہوتا ہے مگر جب وہ پیشی پر جاتا ہے تو علم ہوتا ہے کہ پیشی کا مطلب جج صاحب کے دربار میں حاضری لگوانا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عدلیہ کب تک سائلین کو عدالتوں کے چکر لگواتی رہے گی۔ جج صاحبان کب تک انصاف کی
دیوی کی طرح آنکھیں بند کیے پیشی در پیشی کا دل آزار اور بے زار کن کھیل کھیلتے رہیں گے۔ کیا کبھی کوئی ایسا پلیٹ فارم بھی وجود میں آئے گا جہاں جج صاحبان کی غفلت اور تساہل کا احتساب ہوسکے گا۔ انصاف کب تک انصاف فراہم کرنے والوں کا بغل بچہ بنے گا۔
کاش! چیف جسٹس آف پاکستان کبھی اس شخص کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں جو ایک طویل جاں گسل اور صبر آزما مدت تک سول کورٹ، سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے مقدمہ جیت جاتا ہے مگر جب اس کا مخالف فریق سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرتا ہے تو چند برسوں کے بعد سپریم کورٹ مقدمہ کی بنیاد کو غلط قرار دے کر سول کورٹ کو بھیج دے تو نظام عدل کا ماتم کرنے کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے؟۔ ہم جج صاحبان کو ’’مقدس گائے‘‘ کہہ کر توہین عدالت کے مرتکب ہونا نہیں چاہتے، صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ ججز کب تک ’’دیوتا‘‘ بنے رہیں گے۔