انتخابات ملتوی کرنے کی صدائیں

395

نگران وزیراعظم ناصر الملک نے حلف اٹھالیا اور اس طرح پاکستان کی تاریخ میں تیسری قومی اسمبلی نے اپنی 5 سالہ مدت پوری کرلی۔ تاہم سول حکمرانی کے تحت یہ دوسری قومی اسمبلی تھی جس نے 5 سال پورے کیے۔ 2002ء سے مدت پوری کرنے والی قومی اسمبلی فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ماتحت تھی۔ تینوں قومی اسمبلیوں نے 16 سال میں 7 وزرائے اعظم بھگتائے جو جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کی کمزوری کی علامت ہے۔ 2008ء میں فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف اپنی وردی اتارنے پر مجبور ہوئے جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے۔ تب سے وہ اپنی کھال سے باہر ہیں اور جس ملک پر انہوں نے 9 سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کی، اب وہ وہاں واپس آنے پر خوف زدہ ہیں۔ دوران حکمرانی وہ دعوے کرتے رہے کہ ملک میں سب سے بہتر جمہوریت انہوں نے قائم کی۔ لیکن یہ جمہوریت فوج کے سائے میں تھی۔ جنرل پرویز اب بھی اپنے آپ کو تیسری سیاسی قوت سمجھتے ہیں اور ایک نام نہاد سیاسی جماعت بناکر ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ خواب دیکھنا ان کا حق ہے لیکن اب ملک میں ان کا کوئی مقام نہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم پر نوازشوں کی انتہا کردی وہ بھی انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آمروں کا یہی انجام ہوتا ہے۔ جب وہ تخت اقتدار سے اترتے ہیں تو نظروں سے بھی اتر جاتے ہیں۔ پہلے مارشل لا ڈکٹیٹر ایوب خان ذلیل ہوکر الگ کیے گئے اور ان کے جانشین جنرل یحییٰ خان نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ جنرل ضیا الحق ایک حادثے کا شکار ہوئے تو کچھ عرصہ سول حکومت دیکھنے میں آئی۔ پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف باری باری آتے جاتے رہے گو کہ ان کی سول حکومتیں بھی فوج کی زیر سایہ تھیں لیکن ان کی نالائقی کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کو ایک بار پھر مارشل لا لگانے کا موقع مل گیا۔ بے نظیر اور نواز شریف دونوں ملک سے باہر رہے۔ جنرل پرویز کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے پیش رو فوجی حکمرانوں کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے نئی غلطیاں کیں جن میں اہم غلطی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس افتخار چودھری سے محاذ آرائی اور ملک میں ایک بار پھر مارشل لا نافذ کرنے کی کوشش تھی۔ آج کل اس پر بحث ہورہی ہے کہ ملک سے باہر جانے میں ان کی معاونت کس نے کی، نواز شری اور آصف زرداری ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیراتے ہیں لیکن اس معاملے میں کچھ حصہ عدلیہ کا بھی تھا۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پرویز مشرف کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کیے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی دوسرے ملک کا سفر نہیں کرسکیں گے لیکن پرویز مشرف اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں گے۔ یکم جون سے نگران حکومت کا آغاز ہوچکا ہے اور عام انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان بھی ہوگیا ہے اس کے باوجود صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں نے انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ بلوچستان اسمبلی کا موقف یہ ہے کہ جولائی کے آخری ہفتے میں سخت گرمی ہوگی اور بارشوں، سیلاب کا خطرہ بھی ہے جس کی وجہ سے رائے دہندگان اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوں گے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کا موقف ہے کہ فاٹا کے انتخابات بھی ساتھ ہی ہوں اور اس سے پہلے عدالت نے جو حلقہ بندیاں ختم کی ہیں ان کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ جہاں تک بارشوں، سیلاب اور گرمی کا تعلق ہے تو بارشوں اور سیلاب کا خطرہ اگست میں بھی رہے گا۔ دنیا میں جہاں انتخابات ہوتے ہیں وہاں موسم کی وجہ سے معطل یا منسوخ نہیں ہوتے۔ ایسے خدشات کا اظہار انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے پہلے کرناچاہیے تھا۔سُر میں سر ملاتے ہوئے ایم کیو ایم نے بھی لندن کے اشارے پر انتخابی بائیکاٹ کا امکان ظاہر کیا ہے۔ تاہم گزشتہ جمعرات کو 5 سالہ دور حکومت کے آخری دن حکمران مسلم لیگ ن اور حزب اختلاف دونوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ عام انتخابات صاف شفاف ہوں اور کسی بھی غیر سیاسی قوت کو مداخلت کا موقع نہ ملے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج کو مداخلت کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب سیاست دان ناکام ہوجائیں۔ سیاسی جماعتیں دست و گریباں ہوں اور جب فوج اقتدار پر قبضہ کرلے تو سیاسی جماعتیں آگے بڑھ کر استقبال کریں اور فوجی حکومت کا حصہ بن جائیں۔ سابق ہوجانے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے آخری خطاب میں فرمایا ہے کہ ملک میں احتساب سے مسائل پیدا ہوئے، عدلیہ اور نیب کی وجہ سے سرکاری مشینری مفلوج ہوگئی اور سرکاری افسران کے پاس بس یہی راستہ بچا ہے کہ کوئی کام کریں نہ کوئی فیصلہ لیں یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ کسی کا احتساب ہی نہ ہو، عدلیہ اور نیب بوریا بستر سمیٹ لیں اور سرکاری افسران بے خوف و خطر کام دکھاتے رہیں۔