ریاستی راز

316

یوں تو دُنیا میں کون سا قابل ذِکر ملک ایسا ہے جسے دشمنوں کا سامنا نہیں لیکن پاکستان وہ ملک ہے جو چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ خاص طور پر اس کا مشرقی ہمسایہ ملک اس کا جانی دشمن ہے، اس نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اس کے اندر موجود انتہا پسند گروپ ہر وقت اپنے عوام میں پاکستان دشمنی کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ پاکستان بھارت ماتا کو کاٹ کر بنایا گیا ہے، جب تک اس کا وجود بھارت میں ضم نہیں ہوتا وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ حکومتی سطح پر بھی پاکستان کے وجود کو مٹانا بھارت کے قومی ایجنڈے میں شامل ہے اور وہ ابتدا ہی سے اس ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔ وہ 1971ء میں پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر اسے بنگلا دیش بناچکا ہے، اب اس کی نظریں بلوچستان پر ہیں جہاں وہ باغیانہ سرگرمیوں پر بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے، پاکستان نے کچھ عرصے پہلے بھارت کا ایک اہم جاسوس کلبھوشن یادیو گرفتار کیا ہے جو پورے ملک میں دہشت گردوں کا ایک منظم نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ یہ تو ہے پاکستان کے سب سے بڑے ہمسایے کا تعارف جو پاکستان کے لیے مستقل خطرے کا درجہ رکھتا ہے۔ شمالی مغرب میں پاکستان کا ایک ہمسایہ افغانستان ہے جو ہے تو برادر اسلامی ملک لیکن پاکستان کے ساتھ اس کی کبھی نہیں بنی اور ان دنوں تو وہ بھارت اور امریکا کے زیر اثر پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ایران بھی پاکستان کا ہمسایہ ہے اور اسلامی اخوت کے رشتے میں بندھا ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ تعلقات کو بھی زیادہ خوشگوار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکا جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کا ہمسایہ تو نہیں لیکن بین الاقوامی سیاست کی لغت میں وہ دنیا کے ہر ملک کا ہمسایہ ہے پاکستان کا تو اس اعتبار سے کچھ زیادہ ہی ہمسایہ ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھا ہوا پاکستان کو ڈکٹیٹ کررہا ہے۔ امریکا سے پاکستان کے حق میں کبھی خیر کی خبر نہیں آئی، اس وقت بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخی قائم ہے اور صدر ٹرمپ پاکستان کے کان اینٹھنے کے نت نئے طریقے سوچتے رہتے ہیں۔ بس ایک چین پاکستان کا وہ ہمسایہ ہے جہاں فسے پاکستان کو ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا آرہی ہے۔ دونوں ملکوں کی دوستی اب عالمی تعلقات میں ایک روایت کا درجہ اختیار کر گئی ہے، چین پاکستان میں سی پیک منصوبے میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگا اور پاکستان اس منصوبے کی تکمیل کے بعد ترقی کی دوڑ میں آگے نکل جائے گا۔ یہ چیز بھی پاکستان کے دشمنوں کو کھٹک رہی ہے اور وہ ہر حال میں اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔
یہ ہے وہ صورت حال جس میں پاکستان اپنی داخلی سلامتی اور دفاع کو مستحکم بنانے اور ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے کا پابند ہے۔ یہ اقدامات علانیہ بھی ہوسکتے ہیں اور خفیہ بھی۔ ریاست کی زبان میں ان اقدامات کو ریاستی راز (State Secret) کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جو لوگ ملک پر حکمرانی کرتے ہیں وہ ان رازوں کی حفاظت کا حلف اُٹھاتے ہیں۔ یہ لوگ اقتدار میں رہیں یا اقتدار سے سبکدوش ہوجائیں ہر صورت میں حلف کی پاسداری کرتے ہیں۔ اس کی روشن مثال سابق صدر غلام اسحق خان مرحوم کے طرز عمل سے دی جاسکتی ہے، وہ قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل اقتدار کا حصہ رہے۔ ایک سینئر بیورو کریٹ کی حیثیت سے ریاست کے بہت سے راز ان کی دسترس میں تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی راز کو افشا کرکے اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔ پھر انہوں نے ایک سیاستدان کی حیثیت سے بھی زندگی کا طویل عرصہ گزارا، ملک کے وزیر خزانہ رہے، سینیٹ کے چیئرمین کے فرائض انجام دیے، دو مرتبہ ملک کی صدارت سنبھالی۔ ان کا سینہ قومی رازوں کا دفینہ تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پشاور کے مضافات میں اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوگئے، چاہتے تو اس
فراغت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی تہلکہ خیز کتاب لکھ سکتے تھے، خود نہ لکھتے کسی قلمکار کی خدمات حاصل کرلیتے لیکن ان کی احتیاط پسند طبیعت اس پر آمادہ نہ ہوئی۔ ممتاز کالم نگار برادرم ہارون الرشید نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ وہ خان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں اپنی خود نوشت سپرد قلم کرنے کی ترغیب دی، انہیں اپنی خدمات بھی پیش کیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے، آخر تمام قومی رازوں کو سینے میں لیے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ غلام اسحق خان کے مقابلے میں ایک مثال میاں نواز شریف کی ہے، میاں صاحب بھی پاکستان پر ایک طویل عرصے تک حکمران رہے، ان کا سینہ بھی ریاستی رازوں سے بھرا ہوا ہے، ان پر اِن دنوں بُرا وقت آیا ہوا ہے، وہ پاناما لیکس کے مقدمے میں نااہل ہوچکے ہیں اور اب احتساب عدالت میں نیب ریفرنسز کا سامنا کررہے ہیں۔ وہ اپنے خلاف عدالتی فیصلوں کا غصہ پاکستان پر نکالنا چاہتے ہیں، وہ آئے دن یہ دھمکی دیتے رہتے ہیں کہ میرے سینے میں بہت سے راز ہیں مجھے مجبور نہ کیا جائے ورنہ میں سارے راز کھول دوں گا۔ وہ ایک لمحے کے لیے یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ انہوں نے اپنی حکمرانی کے دور میں اِن رازوں کی پاسداری کا حلف اُٹھا رکھا ہے۔ بے شک وہ اب حکمران نہیں ہیں لیکن پاکستان سے وفاداری اور اس کے رازوں کی پاسداری کا حلف تو برقرار ہے جس کی پابندی ان کا اخلاقی اور قانونی فرض ہے۔ تاہم میاں صاحب خود کو اس کا مکلف نہیں سمجھتے وہ ممبئی حملہ کیس میں متنازع بیان دے کر اپنی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرچکے ہیں جس سے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات بڑھ گئے ہیں اور پوری دنیا میں پاکستان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ درست کہ ریاستی راز ہمیشہ راز نہیں رہتے ایک وقت آتا ہے جب ان کی افادیت ختم ہوجاتی ہے اور انہیں مشتہر کرنا ملک کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا لیکن یہ فیصلہ فرد واحد نہیں کرتا، اسٹرٹیجک امور سے متعلق ملک کا اعلیٰ ترین ادارہ کرتا ہے۔ پوری دنیا میں یہ روایت قائم ہے، امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک بھی تیس چالیس سال بعد اپنے رازوں سے پردہ اٹھا دیتے ہیں لیکن بعض راز ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ راز ہی رہتے ہیں اور انہیں ظاہر کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاتا۔ مثلاً امریکا میں جو نائن الیون برپا ہوا اس کے بارے میں عالمی ماہرین کی رائے یہی ہے کہ یہ خود امریکا کا تیار کردہ منصوبہ تھا جس کے ردعمل میں مسلمان ملکوں کو تباہ کرنا مقصود تھا لیکن امریکا کبھی اس ’’راز‘‘ سے پردہ نہیں اُٹھائے گا۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، دشمنوں نے اس پر پراکسی وار بھی مسلط کر رکھی ہے اور خود پاکستان بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے وہ دشمنوں کو جواب بھی دے رہا ہے اور ان کے وار بھی سہہ رہا ہے۔ ایسے میں ریاستی رازوں کو افشا کرنا یا انہیں ظاہر کرنے کی دھمکی دینا کیا حب الوطنی کی تعریف میں آتا ہے؟ میاں نواز شریف ہوں یا جنرل اسد درانی ہم ان کے بارے میں یہی کہہ سکتے ہیں
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی