سرسید اور ان کا سفر لندن

487

سرسید کی زندگی اور فکر میں ان کے سفر لندن کی اہمیت بنیادی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سفر لندن سے قبل سرسید انگریزوں سے مرعوب تھے مگر سفر لندن نے ان کی ’’مرعوبیت‘‘ کو ’’ہیبت‘‘ میں تبدیل کردیا۔ سفر لندن سے قبل وہ مغرب کے ’’انس‘‘ میں مبتلا تھے مگر سفر لندن نے سرسید کے انس کو ’’عشق‘‘ میں ڈھال دیا۔ یعنی سرسید کا نزلہ سرطان بن گیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مغرب کے کمالات سرسید کے لیے بیشتر صورتوں میں ’’غیب‘‘ تھے مگر سفر لندن نے ’’غیب‘‘ کو ’’حضور‘‘ میں تبدیل کردیا۔ سرسید کے سفر لندن کی تفصیلات پڑھ کر خیال آتا ہے کہ سرسید کی مغرب پرستی نے انہیں انفرادی عزتِ نفس ہی سے نہیں اجتماعی عزتِ نفس سے بھی محروم کردیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی تہذیبی اور دینی حمیت سے بھی یکسر محروم ہوگئے تھے۔ سرسید کا سفرنامہ مسافران لندن کے عنوان سے شائع ہوا۔ اگرچہ سرسید نے لندن اور یورپ کے دیگر شہروں میں صرف ڈیڑھ سال قیام کیا مگر مغرب کے ’’مشاہدے‘‘ نے سرسید پر جو ’’ہیبت‘‘ طاری کی اسے دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سرسید یورپ میں ڈیڑھ سال نہیں ڈیڑھ صدی گزار کر واپس لوٹے۔ لیکن اس سے قبل کہ سرسید کے سفرنامے ’’مسافرانِ لندن‘‘ کا ذکر خیر ہو چند اصولی باتوں کا بیان ضروری ہے۔
مذہبی تناظر میں انسانی تہذیب کا بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ کس تہذیب نے کیسی ’’چیزیں‘‘ تخلیق کیں بلکہ انسانی تہذیب کا بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی تہذیب نے کیسے ’’انسان‘‘ پیدا کیے؟۔ لفظ انسان کوئی مجرد تصور نہیں ہے۔ مذہبی تناظر میں انسان کے تشخص کے صرف دو حوالے ہیں۔ ایک ’’شعور حق‘‘ اور دوسرا ’’شعور بندگی‘‘۔ ظاہر ہے کہ ’’شعور حق‘‘ اور ’’شعورِ بندگی‘‘ مادّی تصورات نہیں ہیں بلکہ یہ اپنی اصل میں روحانی اور مابعد اطبیعیاتی تصورات ہیں اور کسی بھی تہذیب کے کمال کی سطح انہی تصورات سے متعین ہوتی ہے۔ جدید مغربی تہذیب کے دائرے میں شعور حق اور شعور بندگی لایعنی تصورات ہیں اور اس تہذیب کے دائرے میں انسان کی اہمیت یا تو طاقت اور دولت سے متعین ہوتی ہے یا ’’چیزیں‘‘ بنانے کی صلاحیت سے۔ بلاشبہ طاقت اور دولت پیدا کرنا اور چیزیں بنانا بھی مذاق نہیں مگر طاقت ہو یا دولت یا چیزیں یہ ’’خارجی زندگی‘‘ زندگی کے مظاہر ہیں اور ان کا باطن سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس شعورِ حق اور شعور بندگی انسان کی داخلی جہت اور داخلی ارتقا سے تعلق رکھتے ہیں۔ سرسید تہذیبوں کے اس فرق کا بہت سرسری سہی ادراک رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ اس مکالمے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جو پانی کے جہاز سے لندن جاتے ہوئے سرسید اور ایک برطانوی شہری لیفٹیننٹ جے بی لارنس کے درمیان ہوا۔ جے بی لارنس نے سرسید سے کہا کہ بعض ہندو کہتے ہیں کہ صحیح مذاہب صرف تین ہیں۔ ہندو ازم، اسلام اور عیسائیت تمہارا کیا خیال ہے؟ پھر خود ہی کہنے لگے کہ سب مذاہب تو صحیح نہیں ہوسکتے صرف ایک ہی مذہب صحیح ہوگا اور میرے نزدیک صحیح مذہب صرف عیسائیت ہے۔ اس کے بعد سرسید اور جے بی لارنس کے درمیان جو گفتگو ہوئی سرسید کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’میں نے کہا ہر شخص اپنے مذہب کو ایسا ہی سمجھتا ہے۔ کہنے لگے کہ اوروں کی سمجھ ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے کہا آپ کے خیال کے صحیح ہونے کی دلیل اور دوسروں کے خیال کے غلط ہونے کی کیا دلیل ہے؟ کہنے لگے دیکھو عیسائی قوم نے کیا کیا؟ انگریزوں نے تمام دنیا کی قوموں سے زیادہ خدا کی مہربانی حاصل کی ہے۔ علم اور ہنر جیسا کہ ہمارے پاس ہے کسی دوسری قوم کے پاس نہیں۔ ہم ہی کو خدا نے حکمت عطا کی ہے۔ دیکھو اس ذخانی جہاز کو کیا حکمت سے بنا ہے اور کس حکمت سے چلتا ہے۔ ریل گاڑی کی حکمت اور طاقت تم نے بخوبی دیکھی ہوگی۔ تار برقی کی کرامت تم جانتے ہو۔ فوج کی اور جنگ کی بادشاہی قوت تمام دنیا میں ہماری سی کسی میں نہیں۔ اگر کوئی اور مذہب سچا ہوتا تو اس پر بھی خدا اسی طرح مہربان ہوتا۔ میں نے کہا کہ یہ سب باتیں دنیا کے کاموں سے متعلق ہیں۔ ان سے اور مذہب کے سچے یا جھوٹے ہونے سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دیکھو خدا تعالیٰ نے اپنے نیک بندے ایوبؑ کو اور اپنے پیارے جیس کرائسٹ یعنی حضرت عیسیٰؑ کو دنیا میں ذرا بھی جگہ نہ دی۔ نیک بندوں کے لیے دنیا نہیں ہے بلکہ دوسری زندگی کی نعمت ہے‘‘۔
(مسافرانِ لندن۔ ازسرسید۔ صفحہ66)
اس مکالمے سے جدید مغربی تہذیب کے انسان کی یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو کر سامنے آگئی ہے کہ اہل مغرب سائنس اور ٹیکنالوجی یا مادے سے اشیا بنانے کی اہلیت کو انسان اور اس کی تہذیب کی معراج سمجھتے ہیں۔ سرسید نے اس ذہنیت کی تھوڑی سی مزاحمت کرکے ظاہر کیا کہ وہ مذہب کے اصل مقصود کو تھوڑا بہت سمجھتے ہیں مگر انہوں نے مثال دی تو ایوبؑ اور سیدنا عیسیٰؑ کی۔ حالاں کہ ان کے سامنے سیدنا داؤد کی مثال بھی تھی اور سیدنا سلیمانؑ کی مثال جنہیں سلطنت اور حکومت عطا کی گئی۔ سب سے بڑی مثال رسول اکرمؐ کی ہے۔ آپؐ نے تجارت بھی کی۔ جہاد بھی کیا۔ ریاست بھی قائم کی۔ حکومت بھی کی۔ ان سب کے باوجود آپؐ کی اصل عظمت آپؐ کا شعور حق اور شعور بندگی ہی سے ہے۔ ایک لاکھ 24 ہزار انبیا میں سے معراج کسی کو بھی عطا نہیں ہوئی مگر معراج کے واقعے نے بھی آپؐ کے شعور حق اور شعور بندگی ہی کو بڑھایا۔ ایک لاکھ 24 ہزار انبیا میں سے کسی نبی کی عظمت کا تعلق سائنس یا ٹیکنالوجی یا اشیا سازی سے نہیں ہے۔ ملکہ سبا جب سیدنا سلیمانؑ کے محل میں لائی گئی تو محل کا فرش ایسا تھا کہ ملکہ کو فرش پر پانی کی موجودگی کا دھوکا ہوا۔ چناں چہ وہ پائنچے اٹھا کر چلنے لگی۔ اسے بتایا گیا کہ فرش پر پانی نہیں ہے بلکہ فرش اتنا شاندار ہے کہ اس پر پانی کا دھوکا ہورہا ہے۔ مطلب یہ کہ سیدنا سلیمانؑ کا محل عمارت سازی کا بہترین نمونہ تھا مگر سیدنا سلیمانؑ کی عظمت کے ایک ریزے کا تعلق بھی عمارت سازی سے نہ تھا۔ بہرحال یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ سرسید اس بات کا معمولی سا اندازہ تھا کہ انسان اور مذہب کا اصل تعلق کن امور سے ہے۔ مگر سرسید لندن اور فرانس کے بعض شہروں میں پہنچے تو ان کا ہلکا پھلکا مذہبی شعور بھی تہہ و بالا ہوگیا۔ سرسید نے یورپی شہروں کو صفائی دیکھا تو فرمایا۔
’’بلاشبہ صفائی اور ہر کام میں خوبصورتی یورپ کے لوگوں کی طبیعت میں ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتی ہے اور ملک کے لوگوں کی طبیعت میں یہ بات نہیں‘‘۔
یورپ کے شہروں کی صفائی کا انکار ممکن نہیں مگر سرسید یورپ کے لوگوں سے اتنا مرعوب تھے کہ انہوں نے یورپ کے شہروں کی صفائی کو یورپی لوگوں کی نسل خوبی یا ’’نسل صفت‘‘ بنا دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے دنیا کی دیگر تمام اقوام کو اس صفت سے بھی محروم کردیا اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ سرسید ہمارے زمانے میں ہوتے تو دیکھ کر حیران اور پریشان ہوتے کہ مسلم ملک ترکی کے شہر استنبول اور انقرہ اور ملائیشیا کا شہر کوالالمپور بھی صفائی میں یورپی شہروں سے کچھ کم نہیں۔
سرسید فرانس کے شہر مارسیلز پہنچے تو وہاں کے بازاروں کو روشن دیکھ کر خیال آیا کہ ہندوستان میں اتنی روشنی تو دیوالی پر بھی نہیں ہوتی جو کہ روشنی کا تہوار ہے۔ (مسافران لندن۔ صفحہ135) سرسید نے مارسیلز کے ایک شراب خانے کو دیکھا تو انہیں خیال گزرا کہ یہاں شادی کی کوئی تقریب ہورہی ہے مگر معلوم کیا تو پتا چلا کہ یہ شراب خانہ ہے۔ فرمایا۔
’’کیا خدا کی قدرت ہے کہ عام لوگوں کو بھی، یہاں تک کہ قلی اور مزدوروں کو بھی ایسی آراستگی کے ساتھ شراب پینی میسر ہے کہ جمشید کو کبھی خیال میں بھی میسر نہ ہوگی‘‘۔
(مسافران لندن۔ ازسرسید۔ صفحہ 136)
کتنی عجیب بات ہے کہ سرسید فرانس کا ایک شراب خانہ دیکھ رہے ہیں اور انہیں شراب خانے کو دیکھ کر بھی ’’خدا کی قدرت‘‘ یاد آرہی ہے۔ وہ خدا کی قدرت جو انہیں مسلمانوں کا عظیم الشان علم، تفسیر، علم حدیث اور علم فقہ دیکھ کر بھی کبھی یاد نہ آئی۔ سرسید یورپ گئے تھے تو یورپ کا ’’ناچ گھر‘‘ کیسے نہ دیکھتے۔ شراب خانے کے بعد وہ ناچ گھر پہنچے تو اسے دیکھ کر انہوں نے لکھا۔
’’دیکھا کہ نہایت آراستہ مکان ہے اور باغ سا لگا ہوا ہے۔ شیشوں کا شیشوں کے آلات کا کچھ حساب نہیں۔ سیکڑوں کرسیاں بچھی ہیں اور ہر کرسی کے سامنے چھوٹی سی میز ہے۔ کوئی چائے پیتا ہے، کوئی کافی، کوئی شراب۔ خدمت گار متعین ہیں اور سب چیزیں حاضر کرتے ہیں۔ سامنے نہایت مکلف شہہ نشین بنی ہوئی ہے۔ گانے والے اور گانے والیاں اور باجا بجانے والے ہیں۔ ہم تھوڑی دیر وہاں ٹھیرے اور تماشا دیکھ کر چلے آئے۔ کہانیوں میں بھی ایسی کیفیت نہیں سنی تھی جو آنکھوں سے دیکھی‘‘۔
(مسافران لندن۔ سرسید۔ صفحہ 192)
آپ سرسید کی تحریر کے اس اقتباس کی آخری سطر کو غور سے پڑھیے۔ سرسید فرمارہے ہیں کہ فرانس کے ناچ گھر یا ڈانس کلب میں جو کیفیت تھی اس کے آگے کہانیاں بھی ہیچ ہیں۔ یعنی دوسری قوموں کا تخیل بھی وہ چیز تخلیق نہ کر سکا جو فرانس کے ناچ گھر میں عملاً موجود تھی۔
سرسید نے فرانس کا ایک محل دیکھا تو انہیں دہلی کا ایک شاہی محل یاد آگیا۔ دونوں کا موازنہ کیا تو سرسید کو ان دونوں میں وہی فرق نظر آیا جتنا کہ ایک بہت خوبصورت اور بدصورت آدمی میں ہوتا ہے۔
(مسافران لندن۔ صفحہ 148)
سرسید لندن میں گھومے پھرے اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں تو یورپی انسانوں کے بارے میں ان کی رائے پہلے سے بہت بہتر اور ہندوستانیوں کے بارے میں ان کی رائے پہلے سے بہت بدتر ہوگئی۔ فرمایا:
(جاری ہے)
’’میں بلامبالغہ سچے دل سے کہتا ہوں کہ تمام ہندوستانیوں کو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ تک، امیر سے لے کر غریب تک، سودا گر سے لے کر اہل حرفہ تک، عالم فاضل سے لے کر جاہل تک، انگریزوں کی تعلیم و تربیت اور شائستگی کے مقابلے پر درحقیقت ایسی ہی نسبت ہے جیسے ایک نہایت خوبصورت آدمی کے سامنے نہایت میلے کچیلے وحشی جانور کی‘‘۔
(مسافران لندن۔ ازسرسید۔ صفحہ188)
اقبال نے کہا ہے
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی زیرہ کاری ہے
مگر یورپ کے سفر سے سرسید کی نظر اتنی خیرہ ہوئی کہ انہیں اپنے ملک کے عوام اور تاجر ہی نہیں عالم فاضل بھی ’’وحشی اور جانور‘‘ نظر آنے لگے۔
سرسید نے ایک جگہ تحریر فرمایا۔
’’تمام خوبیاں دینی و دنیاوی جو انسان میں ہونی چاہئیں وہ خدا تعالیٰ نے یورپ کو اور اس میں بالتخصیص انگلینڈ کو مرحمت فرمائی ہیں‘‘۔
(مسافران لندن۔ ازسرسید۔ صفحہ 190)
یورپ کی ’’دینی خوبیوں‘‘ کا قصہ یہ ہے کہ یورپ نے اپنے دین پر تھوک کر اسے مسترد کردیا ہے۔ برطانیہ کے ممتاز ہفت روزے ’’دی اکنامسٹ‘‘ کے مطابق مغربی یورپ کے 75 اور مشرقی یورپ کے 80 فی صد لوگ کسی خدا اور کسی مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ کیتھولک فرقے کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ فرانسس نے روحانی اعتبار سے یورپ کی نئی نسلوں کو ’’گمشدہ نسلیں‘‘ قرار دے دیا ہے۔ جہاں تک یورپ کی دنیاوی خوبیوں کا تعلق ہے تو کوئی سرسید کو عالم بالا میں بتائے کہ یورپی اقوام نے جو معاشی اور مادی ترقی ڈیڑھ سو سال میں کی تھی وہ ترقی چین نے صرف 40 سال میں کرکے دکھادی ہے۔ کسی مسلمان ملک کو بھی اچھی قیادت میسر آجاتی تو وہ بھی یہ ’’کارنامہ‘‘ انجام دے سکتا تھا۔
سرسید مغرب کے حوالے سے جس احساس کمتری میں مبتلا تھے وہی احساس کمتری انہوں نے اپنی اولاد میں بھی پیدا کیا۔ اس کا بیان خود سرسید کی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ایک دن میں اور حامد اور محمود (لندن میں) انڈیا آفس لائبریری گئے۔ محمود نے ایک کتاب کو دیکھنا شروع کیا۔ اتنے میں ایک نوجوان انگریز، شاید کوئی سول سروس پاس کیے ہوئے تھا وہاں آن کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے محمود سے پوچھا کہ کیا تم ہندستانی ہو؟ محمود نے بلا خیال کہا Yes (ہاں) مگر یہ کہتے ہی اسے ایسی شرمندگی ہوئی کہ اس کا رنگ متغیر ہوگیا اور اس نے کہا۔
I am of a boreign nation, and not an Indian
یعنی میں ہندوستان کی قوم کا آدمی نہیں ہوں بلکہ پردیسی قوم کا ہندوستان میں آیا ہوں۔ پس خیال کرو جب تک یہ کلنک کا ٹیکا ہندوستان اپنے منہ سے نہ چھٹا دیں گے اس وقت تک کبھی ان کی عزت اور قدر کسی تربیت یافتہ قوم کی آنکھ میں نہ ہوگی‘‘۔
(مسافران لندن۔ سرسید۔ صفحہ 196)
بدقسمتی سے سرسید نے یہی احساس کمتری علی گڑھ کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں پیدا کیا اور اسے عام کیا۔
سرسید جنت کے قائل نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنت کا کوئی خارجی وجود نہیں بلکہ انسان خوشی محسوس کرے گا تو وہ جنت میں ہوگا اور تکلیف محسوس کرے گا تو جہنم میں ہوگا۔ مگر لندن کو دیکھ کر وہ جنت کے ہی نہیں حوروں کے بھی قائل ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لندن سرسید کو جنت لگا اور لندن کی ’’حسینائیں‘‘ انہیں ’’حوروں‘‘ جیسی محسوس ہوئیں۔ انہوں نے لکھا۔
’’عاقل و عیاشی آدمی کے لیے جو خوشی اور نعمت یہاں مقصود رہے خدا معلوم بہشت میں بھی ہوگی یا نہیں۔ میرے ایک بڑے معزز دوست نے ایک بڑے جلسے میں جہاں تکلفانہ پوشاک پہنے ہوئے کئی سو مرد و میم و لیڈی نہایت خوبصورت و خوش کلام اور قابل جمع تھیں، پوچھا کہ کہو لندن بہشت ہے یا نہیں اور حوروں کا ہونا سچ ہے یا نہیں؟۔‘‘
چوں کہ سرسید نے اپنے دوست کے جواب کا نفی میں جواب نہیں دیا اس لیے یہ قیاس کرنا غلط نہ ہوگا کہ سرسید لندن سے جنت اور لندن کی حسیناؤں سے حوروں کے قائل ہوگئے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لندن سرسید کو ’’عیاشی کا مرکز‘‘ نظر آیا اور انہوں نے اس کا نام جنت کے ساتھ لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرسید جنت کو بھی لندن کی طرح عیاشی کا مرکز سمجھتے تھے اور ان کی نظر میں سارے جنتی ’’عیاش لوگ‘‘ ہوں گے۔ چوں کہ جنت خدا کی عطا ہوگی اس لیے سرسید نے معاذاللہ خدا کو عیاشی کے مرکز کا ’’خالق‘‘ باور کیا ہوا تھا۔
پڑھتا جا شرماتا جا