شاہد خاقان عباسی کا شکوہ

210

شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوتے ہوئے شکایت کی تھی کہ عدالت اور نیب نے حکومت کو چلنے نہیں دیا ، سرکاری مشینری مفلوج ہو گئی اور سرکاری افسران کوئی فیصلہ کرنے سے گھبرانے لگے ۔ بات یہ ہے کہ جب کام صحیح ہو رہے ہوں تو عدالتوں اور احتساب سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ عدالت ، قانون اور احتساب سے جرائم پیشہ عناصر خوف زدہ رہتے ہیں ۔ شاہد خاقان کے اس شکوے کا تعلق اپنی پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کے احتساب سے ہے ۔ لیکن کیا جولائی 2017ء سے پہلے بھی صورتحال یہی تھی کہ حکومت کو چلنے نہیں دیا جا رہا تھا؟ حکومت تو خوب چل رہی تھی بلکہ دوڑ رہی تھی ۔ جوکام عدالتیں اور نیب کر رہی ہیں اگر وہی کام حکمرانوں نے کیے ہوتے تو عدالتوں اور نیب کو کچھ نہ کرنا پڑتا ۔ یہ جو آئے دن اربوں کی کرپشن کے معاملات سامنے آ رہے ہیں کیا ان پر حکومت نے کوئی قدم اٹھایا ۔ یہ سب تو حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہوتا رہا بلکہ حکومت کی معاونت کے ساتھ۔ بات پاناما اسکینڈل اور نواز شریف پر چلنے والے مقدمات کی نہیں ہے لیکن بڑے بڑے سرکاری افسران کی لوٹ مار سامنے آ رہی ہے ان کو روکنا اور ان پر ہاتھ ڈالنا کس کا کام تھا؟ حکمرانوں نے یہ کام نہیں کیا ۔ ایک بڑے سرکاری افسر احمد چیمہ کی مثال سامنے ہے ۔ اس پر ہاتھ ڈالا گیا تو پنجاب کے سرکاری افسران نے احتجاجاً کام بند کر دیا لیکن تحقیقات کے نتیجے میں اس کے جو کارنامے سامنے آ رہے ہیں ان کے پیش نظر اب اس کے حمایتی سرکاری افسران کیا کہیں گے ۔ در اصل ایسے ہی سرکاری افسران نیب اور عدالت سے خوف زدہ ہیں اور شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرنے سے گھبراتے ہیں ۔ در اصل وہ پکڑے جانے کے خوف سے گھبرا رہے ہیں ورنہ صحیح فیصلے اور ان پر عمل سے کیا گھبرانا ۔ ریاض ملک حکمرانوں کا چہیتا ہے اور اس کے بارے میں انکشافات سامنے آ رہے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کے لیے اس نے زمینوں پر قبضہ کیا ۔ کراچی کے لیے پانی کا کے۔4 منصوبہ شہریوں کے لیے نہیں بحریہ ٹاؤن کے لیے ہے ۔ کراچی سے لے کر مری تک زمینوں پر قبضے روکنا شاہد خاقان عباسی اور ان کے پیشرو کا کام تھا جو نہیں کیا گیا ۔ پھر یہ کام کوئی تو کرے گا اور عدلیہ اور نیب کے ایسے اقدامات سے عوام ضرور خوش ہیں ۔ شاہد خاقان نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں سے اختلاف کے باوجود ان فیصلوں پر عمل درآمد کروایا گیا اور وہ عدالتوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اس کے باوجود عدالتوں کو حکومت کے کاموں میں رکاوٹ بھی قرار دے رہے ہیں ۔ اگر حکمران اپنا کام کرتے رہیں تو کسی اور کو مداخلت کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔