انسانی معاشرہ کسی جامد اور ساکن چیز کا نام نہیں ہے بلکہ ایک متحرک زندہ وجود کا نام ہے جہاں خیر و شر مختلف تناسب کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ قدریں بنتی اور بگڑتی ہیں، قدریں مثبت ہو یا منفی معاشرے کو لازماً متاثر کرتی ہیں، پاکستان میں ایک طرف دین سے رجوع کا رجحان انتہا کو پہنچا ہوا ہے تو دوسری طرف اسلامی تہذیب، معاشرت اور اخلاقیات سے بغاوت، فحاشی اور عریانیت، بے باکی کا کلچر، نوجوان نسل کے جارحانہ رویے، والدین اور اولاد کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کو کھلی آنکھوں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے میڈیا کا کردار ہے جس میں سوشل میڈیا اور موبائل کلچر نے تو سب کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ اس کے بعد الیکٹرونک میڈیا کے ڈراموں اور رات دن اشتہارات نئی نسل کو بگاڑ رہے ہیں، رقص دیکھنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ یہ کس چیز کے اشتہارات ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بے ہودہ اشتہارات جن میں عورتوں کو کھلے بازو، کھلی ٹانگوں کے ساتھ دکھایا جاتا ہے، کیا یہ دکھائے بغیر فروخت نہیں کی جاسکتی ہیں۔ کیا ہمارا دین اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ عورت سرعام اپنے جسم کی نمائش کرے۔
ثمینہ اقبال