تعلیم کی ابتری۔۔۔ ذمے دار کون؟

207

یہ کسی این جی او کی رپورٹ نہیں بلکہ حکومت سندھ کے مانیٹرنگ اور تجزیے سے متعلق ادارے مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن سندھ کے ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ ہے کہ سندھ میں تعلیم کا بجٹ 202 ارب روپے ہے اور یہاں 48 ہزار 677 سرکاری اسکول ہیں ان میں سے 13 ہزار بند ہیں ایک لاکھ 23 ہزار 356 اساتذہ ہیں لیکن صرف 25 ہزار حاضری دیتے ہیں۔ 1773 چھٹیوں پر ہیں جبکہ 2 ہزار سے زیادہ گھوسٹ اساتذہ ہیں۔ بات صرف اساتذہ کی نہیں ان اسکولوں میں رجسٹرڈ طلبہ کی بڑی تعداد بھی اسکول نہیں آتی۔ تقریباً ساڑھے چودہ لاکھ طلبہ بھی اسکولوں سے مستقل غیر حاضر رہتے ہیں۔ یہ ایک صوبے کی اپنی رپورٹ ہے اس کے اپنے ادارے نے یہ رپورٹ نامعلوم کتنے افراد اور اسکولوں کو بچاتے ہوئے بنائی ہوگی اس رپورٹ میں علاقوں کے اعتبار سے بھی اعداد و شمار ہیں۔ اگر غیر جانبدار ادارے اس پر کام کریں تو صورتحال مزید تباہ کن ہے۔ جو اساتذہ حاضر ہوتے ہیں ان کی قابلیت کیا ہے۔ اسکولوں میں میز، کرسی، تختہ سیاہ، بجلی، پنکھے، پانی، بیت الخلا، سائنس روم اساتذہ کے لیے کمرے بھی ہیں یا نہیں۔ اس رپورٹ میں وڈیروں کی اوطاق کا ذکر شاید وڈیروں کے دباؤ یا خوف کی وجہ سے نہیں آسکا۔ ورنہ حالات ایسے ہی ہیں کہ وڈیرہ جس جگہ کو چاہے اوطاق یا اصطبل بنالے قاعدہ قانون کیا ہوتا ہے۔ یہ وڈیرے تو جامعہ کراچی کو بھی اوطاق بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ذرا انتخابات ہوجانے دیں پھردیکھیں جامعہ کراچی اور دیگر جامعات کا کیا حشر ہوتا ہے۔ پہلے تو اسمبلی اور حکومت سے کہا جاتا تھا کہ نوٹس لیں۔ اب تو عوام سے درخواست ہے کہ ایسے لوگوں کو اسمبلیوں میں بھیجیں جن کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہو اور وہ بہتری لاسکیں۔