رمضان: امت مسلمہ کا تربیتی کورس

458

سورہ نحل کی آیت نمبر 92کا ترجمہ ہے ’’تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا‘‘ ماہ رمضان جب شروع ہوتا ہے تو ہمیں معاشرے میں تین قسم کے لوگ نظر آتے ہیں پہلی قسم کے تو وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی کے شب وروز میں رمضان کا کوئی اثر نظر نہیں آتا یعنی جس طرح وہ عام حالات یا علاوہ رمضان کے دنوں میں فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا شکار تھے اسی طرح رمضان میں بھی وہ غفلت کا شکار رہتے ہیں رمضان ان کو کچھ جھنجھوڑتا ہوا محسوس نہیں ہوتا۔ وہ مستقل مزاجی سے جس طرح عام دنوں میں نماز سے غافل رہتے ہیں رمضان میں بھی ان کا یہی حال رہتا ہے۔ ہاں رمضان کے فوائد ضرور سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ دفاتر میں کام کے اوقات کار میں کمی ہوجاتی ہے تو وہ بھی اس سے مستفیض ہوتے ہیں رمضان کے حوالے سے کہیں کوئی سستی سیل لگ رہی ہو یا کسی مارکیٹ میں خریداری پر انعامات کا سلسلہ ہو تو وہاں بھی جاتے ہیں۔ جمعہ کی نماز جس طرح وہ عام دنوں میں ادا کرتے تھے رمضان میں بھی جمعہ پڑھ لیتے ہیں۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے شب وروز پر رمضان کے اثرات واضح طور محسوس ہوتے ہیں مساجد میں مستقل نماز پڑھنے والے تو پچھلی صفوں میں چلے جاتے ہیں اگلی صفحوں میں یہی دوسر ی قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو اذان ہوتے ہی مسجد کی طرف رخ کرتے ہیں پابندی سے روزے رکھتے ہیں تراویح میں پابندی سے شریک ہوتے ہیں کچھ ذکر اذکار بھی کرتے ہیں صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں سحری میں اٹھتے ہیں اس لیے تہجد کی ادائیگی میں بھی آسانی ہوجاتی ہے یہ دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو رمضان کا چاند نظر آتے ہی مساجد میں تراویح پڑھنے آتے ہیں پورے مہینے مسجد میں پابندی سے آتے ہیں اور پھر عید کا چاند نظر آتے ہی یہ غائب ہو جاتے ہیں جس د نیا سے وہ آئے تھے اسی دنیا میں واپس چلے جاتے ہیں۔
تیسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو عام دنوں میں بھی مساجد میں نظر آتے ہیں رزق حلال کماتے ہیں محلوں میں اخلاق کردار کا نمونہ ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان میں یہ اسی طرح پابندی سے نماز پڑھتے ہیں شب بیداری کرتے ہیں اور صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس ماہ مقدس کو یہ سمجھ کر گزارتے ہیں یہ شاید ان کی زندگی کا آخری رمضان ہو اسی لیے اسی رمضان کو اپنی نجات کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے تو یہ معروف قسم کی تقسیم ہے ذیلی تقسیم میں اور بھی لوگ معاشرے میں نظر آتے ہیں مثلاً جو لوگ اپنی سستی تساہلی کی وجہ سے نماز روزے کی پابندی نہیں کر پاتے وہ اور دیگر ثواب کے کام کرتے ہیں مثلاً غریبوں اور مستحقین کے لیے اپنی جیب سے راشن کے پیکٹ بنا کر تقسیم کرتے ہیں روزآنہ ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور کچھ افطاری کا سامان لے کر سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے ہو کر افطار کے ٹائم پر کاروں بسوں اور بائیک پر جانے والے لوگوں کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے جذبات کی قدر کرنا چاہیے۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو رمضان میں روزے تو پابندی سے رکھتے ہیں لیکن نماز سے اسی طرح دور رہتے ہیں جس طرح عام دنوں میں وہ نماز نہیں پڑھتے ایسے لوگ اپنے گھر میں افطاری کا اہتمام بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ کرتے ہیں محلے میں مساجد میں اچھی مقدار میں افطاری بھجواتے ہیں کچھ لوگ اپنے پیسوں سے دکانوں اور بازاروں میں اجتماعی افطار کا اہتمام بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک قسم کے وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو آغاز رمضان میں تو بڑے جوش و خروش سے مسجد میں آتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں لیکن دھیرے دھیرے ان کا جوش و خروش کم ہوتا جاتا ہے اور مساجد میں نمازیوں کی وہ تعداد نہیں ہوتی جو پہلے دوسرے اور تیسرے روزوں میں ہوتی ہے پانچویں چھٹے روزے کے بعد نمازیوں کی وہ مستقل تعداد ہو تی ہے جو ختم قرآن تک رہتی ہے۔ پھر ختم قرآن کے بعد تراویح پڑھنے والوں کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے اور پھر عید کے بعد ہم اسی مقام پر آجاتے ہیں جہاں ہم رمضان سے پہلے تھے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو ہم بچپن سے دیکھتے چلا آرہے ہیں علماء حضرات اپنی تقاریر میں ان موضوعات کو زیر بحث لاتے ہیں لیکن آج تک کوئی عالم ایسا فارمولہ نہیں پیش کرسکا کہ جو تعداد ہمیں ماہ رمضان میں مساجد میں نظرآتی ہے وہی تعداد سارا سال رہے۔
کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ کیا خلفائے راشدین کے ادوار میں، بنو امیہ وبنو عباس کے زمانے میں یا اس کے بعد تک یعنی جب تک مسلمان دنیا میں غالب رہے تو اس وقت کے مسلم معاشروں کی ایسی ہی صورت حال تھی جیسی اب ہمیں اپنے معاشرے میں نظر آتی ہے۔ اس کا کوئی متعین جواب تو نہیں ملتا، دل یہ ضرور مانتا ہے کہ شروع کے ادوار میں تو ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تھا تین یا چار سو ہجری تک یا جب تک علمی، دینی و سیاسی قیادت امت کے پاس رہی اس وقت تک شاید یہ صورت حال نہ رہی ہو پھر جب مسلمانوں کا سیاسی زوال شروع ہوا اور امت کی قیادت دو حصوں میں منقسم ہوگئی کہ سیاسی قیادت کسی اور کے پاس اور دینی قیادت کسی اور کے پاس اس کے بعد یہ معاشرتی زوال وقوع پزیر ہوا ہو۔ وللہ عالم الغیب۔
بہر حال ہمیں اس پہلو پر غور کرنا ہے کہ جو تین طرح کے لوگ ہیں ان کے بارے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے پہلی قسم کے افراد کے لیے تو ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کی ضرورت ہے کہ اللہ ہی دلوں کا پھیرنے والا ہے ہمیں یہ کام کرنا ہے کہ ہمارے رشتے داروں میں دوست احباب میں یا جاننے والوں میں ایسے لوگ ہوں تو انہیں انفرادی طور پر جھنجھوڑنا چاہیے اخلاص کے ساتھ محبت بھرے انداز میں انہیں اس طرف متوجہ کرنا چاہیے شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے دے اور وہ رمضان میں اپنی سابقہ روایت کو بدل دیں تو یہ کام آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے گا۔
دوسری اور تیسری قسم کے لوگ تو یہ بات سمجھ لیں رمضان ان کے لیے ایک ٹریننگ کورس کی طرح ہے کہ جس طرح مختلف ادارے اپنے ملازمین کو تربیتی کورس پر بھیجتے ہیں تاکہ وہ تربیت حاصل کر کے ان کے لیے اثاثہ بن جائیں اس لیے تیسری قسم کے افراد ہر رمضان میں اپنی زندگی کے شب وروز کی عبادات میں کوئی اضافہ ضرور کرلیں مثلاً آج کل سحری میں اٹھنے کی وجہ سے تہجد پڑھنا آسان ہے اب اگر یہ عزم کرلیا جائے کہ عام دنوں میں ہم نماز فجر سے ایک گھنٹہ پہلے اٹھیں گے نماز تہجد کے بعد کچھ مطالعہ قرآن کر کے نماز فجر ادا کریں گے یا اس کے علاوہ اس رمضان میں کوئی اور عزم کر لیں کے ہم روزآنہ قرآن شریف کا کچھ حصہ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھیں گے تو پھر یہ ٹریننگ کورس ہمارے لیے کارآمد ثابت ہو گا اب دوسری قسم کے وہ افراد جو ماہ رمضان میں تو نظر آتے ہیں لیکن عید کا چاند ہوتے ہی خود عید کا چاند بن جاتے ہیں وہ اتنا سمجھ لیں کے اگر وہ کسی ادارے میں کام کرتے ہوں اور ان کے مالکان انہیں کہیں تربیت کے لیے بھیجیں اور پھر واپسی کے بعد وہ اس طرح کا کام نہ کریں جس کام کے لیے انہیں تربیت پر بھیجا گیا تھا تو کیا وہ مالکان انہیں اپنے یہاں ملازمت جاری رکھنے کا موقع دیں گے۔