بروقت اور شفاف۔۔۔مگر کیسے

289

نگراں وزیراعظم جناب ناصر الملک نے عزم ظاہر کیا ہے کہ بروقت اور شفاف انتخابات اولین ترجیح ہیں ہم اپنی ذمے داریوں سے آگاہ ہیں غفلت سے کام نہیں لیں گے۔ انہوں نے بھی وہی بات کہی ہے جو کئی برس سے موجودہ اور سابق چیف جسٹس اور خود چیف جسٹس ناصر الملک کہا کرتے تھے کہ تمام اداروں کو اپنے دائرۂ اختیار میں رہنا ہوگا۔ اور ادارے ہیں کہ اپنے دائرۂ کار میں آتے ہیں نہ رہتے ہیں بلکہ اب تو ہر ادارہ دوسرے کے دائرے میں ہی گھسا جارہاہے۔ اس وقت نگراں وزیراعظم کے لیے چیلنج یہی ہے کہ بروقت اور شفاف انتخابات کرادیں۔ لیکن یہ کام ہوگا کیسے۔۔۔ شاید انتخابات بروقت ہوجائیں۔ لیکن شفاف اور دھاندلی سے پاک ہونے کا امکان بہت ہی کم ہے کیونکہ اس کام کے لیے تیاری ہی نہیں کی گئی۔ انتخابی حلقہ بندیاں، مردم شماری، ووٹر لسٹ، انتخابی عملہ، ووٹر کے انگوٹھے پر لگائی جانے والی روشنائی، الیکٹرونک ووٹنگ، شناختی کارڈز کس کس چیز کو روئیں، کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کیاگیا۔ پھر انتخابات شفاف کیونکر ہوں گے۔ نامزدگی فارم کا مسئلہ الگ متنازع ہوچکا ہے۔ کیا جسٹس (ر) ناصر الملک یہ مسائل حل کرلں گے؟؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ جسٹس ناصر الملک یہ مسائل حل نہیں کرسکیں گے۔ زیادہ سے زیادہ بروقت انتخابات کرائے جاسکتے ہیں، اس میں بھی شبہات بڑھتے جارہے ہیں لیکن پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے پہلے غیر جماعتی انتخابات کے وقت سے یہ شبہات قصداً پھیلائے جاتے رہے ہیں کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔ بے تحاشا شبہات پیدا کیے جاتے تھے کہ جنرل صاحب الیکشن کرائیں گے ہی نہیں۔ عین وقت پر ملتوی کردیں گے وغیرہ وغیرہ اور پھر الیکشن ہوجاتے تھے۔ یہی حال بلدیاتی انتخابات 1979ء، 83ء اور 87ء کا تھا۔ صرف پچیس تیس دن انتخابی مہم کے لیے دیے جاتے تھے اب بھی ایسا ہی ہوگا دس پندرہ دن اختلافی امور نمٹانے میں لگ جائیں گے۔ پھر حکم امتناع پر بہت سے کام ہوجائیں گے گویا لوگ لٹکے رہیں گے کہ کہیں ساری محنت اکارت نہ جائے اور انتخابات کے بعد عدالت فیصلہ دے دے کہ آپ کا تو فارم ہی غلط تھا۔ بہر حال فی الحال تو جسٹس ناصر الملک بروقت انتخابات کے ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن کیا وہ اس سلسلے کو روک سکیں گے جو عدالتوں کے ذریعے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کے لیے کیا جارہاہے۔ یہ درست ہے کہ حکمرانوں کے معاملات کبھی ٹھیک نہیں رہتے۔ میاں شہباز شریف کے معاملات بھی شاید سارے نہیں تو بیشتر خراب ہوں گے لیکن جس طرح انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد تبادلے و تقرر پر پابندی لگ جاتی ہے تو اسی طرح سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کا یا تو فیصلہ سنادیا جائے یا پھر ان پر کارروائی انتخابات کے بعد تک روک دی جائے۔ یہ روزانہ طلبی اور ریمارکس تو براہ راست انتخابی عمل میں حصہ لینے کے مترادف ہیں۔ اگر کسی نے غلط کام کیا ہے تو اس کا فیصلہ کریں ورنہ انتخابات تک یہ ریمارکس اور سماعتوں کا چکر بند کریں۔ یہ تو براہ راست سیاسی معاملات میں مداخلت ہے۔ نگران وزیراعظم نے اپنی کابینہ کے لیے رابطے شروع کیے ہیں لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق وہ غلط راستے پر ہیں۔ خبر یہ ہے کہ انہوں نے سابق بیوروکریٹس، سابق فوجی افسران، ریٹائرڈ ججوں اور کاروباری افراد سے رابطے کیے ہیں۔ گویا ملک چلانے کے لیے سیاست دان مناسب نہیں اور یہ سابق بیوروکریٹس ہمیشہ ملک کی بربادی والے اقدامات کرتے رہنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ فوجی افسران کا کام ہی ملک چلانا نہیں ریٹائرڈ ججوں کو بھی ملکی امور چلانے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ کام تو سیاسی کارکن ہی کرسکتا ہے اس میں کیا حرج ہے کہ غیر متنازع سیاسی رہنماؤں کو نگراں کابینہ میں شامل کیا جائے۔ غیر جانبداری کی خواہش میں صرف برائے نام کچھ لوگ کابینہ میں شامل کرلیے جاتے ہیں جو دو تین ماہ تصویریں کھنچوانے اور اجلاس کرانے میں لگادیتے ہیں۔ نگراں کابینہ میں سب سے اہم انتخاب وزیر داخلہ کا ہوگا آیا اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ انتخابات کی نگرانی کراسکے پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کے نظام کو چلاسکے اور شکایات کی صورت میں غیر جانبدار رہتے ہوئے فیصلے بھی کرسکے۔ ہر صورت میں ذمے داری جسٹس ناصر الملک ہی پر عاید ہوتی ہے۔ بروقت انتخابات تو مسئلہ نہیں لگ رہے لیکن شفاف اور دھاندلی سے پاک پر سوالات موجود رہیں گے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اتنے اعتراضات ہیں تو الیکشن کیوں کرائے جارہے ہیں تو اس کا جواب یہی ہے کہ اسپتالوں سے سیکڑوں شکایات کے باوجود علاج اسپتال میں ہی ہوتا ہے کبھی موچی کے پاس جاکر آپریشن نہیں کرایاجاتا اس لیے بروقت الیکشن تو ہوجانے چاہییں۔