انتخابات کے التوا کی باتیں اوراہل سیاست کی ادائیں

282

ملک میں انتخابات کا موسم سایہ فگن ہے۔ انتخابات کی تاریخ اور شیڈول کا اعلان بھی ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں نے انتخابی عمل کے تقاضے بھی پورے کرنا شروع کر دیے ہیں اور اس مرحلے پر انتخابات کی ہی باتیں ہونی چاہیے تھیں مگر طرفہ تماشا یہ کہ اب انتخابات کے التوا کی افواہیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ نگران وزیر اعظم ناصر الملک انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے پرعزم ہیں اور عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ایک شخصیت کے طور پر توقع یہی ہے کہ انتخابات کے بروقت نہ ہونے کے اندیشے کے ساتھ ہی وہ اپنی کرسی خالی کر کے سارے معاملے سے الگ ہوجائیں گے جس کا وہ اشارہ بھی دے چکے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے انتخابات کے التوا کی واضح تردید کر رہے ہیں اس کے باوجود کچھ ایسا ماحول بن رہا ہے جس سے التوا کی تھیوری کو تقویت مل رہی ہے۔ کاغذات نامزدگی میں پارلیمانی کمیٹی کی طرف کی جانے والی ترامیم کو عدالت نے مسترد کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن کو نئے کاغذات نامزدگی چھاپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایسے کاغذات نامزدگی جن میں امیدوار کے مکمل کوائف اور چال چلن کی تفصیلات درج ہوں۔ (عدالت عظمیٰ نے مذکورہ فیصلہ معطل کر دیا ہے) اسی طرح کئی جگہوں پر عدالتوں نے حلقہ بندیوں کو مسترد کرتے ہوئے نئی حلقہ بندیوں کا حکم دیا ہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو تو حج، گرمی اور کچھ دوسری وجوہ کو بنیاد بنا کر الیکشن کے التوا کی درخواست بھی کر چکے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی فاٹا کے انتخابات کو جواز بنا کر ایک خط میں الیکشن کے التوا کی بات کر چکے ہیں۔ نگران وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کو کاغذات نامزدگی منسوخ کرنے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔ انتخابات کا التوا کون چاہتا ہے تاحال یہ واضح نہیں۔ میاں نوازشریف نے پھبتی کسی ہے کہ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کرنے والی جماعت اب الیکشن کا التوا چاہتی ہے۔ پیپلزپارٹی بھی کہہ رہی ہے کہ انتخابات کے التوا کی صورت میں ان کا ردعمل وہی ہوگا جو ایک سیاسی جماعت کو ہونا چاہیے گویا کہ پیپلزپارٹی بھی انتخابات کے التوا کی باتوں سے کبیدہ خاطر ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں بھی انتخابات کے بروقت انتخابات کی حامی ہیں اور اس حوالے سے اپنی رائے کا کھل کر اظہا کر رہی ہیں۔
انتخابات کے التوا کی باتوں کے پس پردہ اگر سازشی تھیوری کو تلاش کیا جائے تو بھی یہ سوال اہم ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کاغذات نامزدگی میں غیر ضروری ترمیم کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ ہمارے معاشرے میں ایک امیدوار جو خود کو عوام کی خدمت سے زیادہ قیادت وسیادت کے لیے پیش کرتا ہے اپنے معاملات کو پوشیدہ رکھنے میں کیا دلچسپی کیوں رکھتا ہے؟ حالاں کہ ایسے شخص کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہونی چاہیے۔ ہمارے عوامی نمائندے کاغذات نامزدگی میں ترمیم کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ ان معاملات کو پردوں میں چھپانے کا زمانہ گزر گیا۔ کسے خبر تھی کہ پاناما کے مدتوں سے سربستہ راز کھل جائیں گے اور دولت کے انبار اپنے مالکوں کے گھر کا خود پتا دینے لگیں گے، تجوریوں اور لاکروں کو زبان مل جائے گی۔ اس کے نتیجے میں کئی ملکوں میں سیاسی بھونچال آئیں گے۔ فاروق بندیال تو ایک بھولی بسری کہانی کا نام تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ادکارہ شبنم پر بیتنے والی قیامت میں سزائے موت کا حق دار قرار پانے والا شخص جسے مظلوم خاتون سے ایک مشکوک مفاہمت کے نتیجے میں رہائی ملی تھی دھر لیا گیا تو کب اور کہاں؟ اور ایک بڑے علاقے میں ٹرانسپورٹ کا ڈان کہلانے والی شخصیت نے کبھی سوچا بھی ہوتا کہ عشروں بعد جب وہ شاداں وفرحاں حالات کی لہر پر سوار ہو کر سیاست کی راہداریوں میں قدم رکھیں گے تو وقت ان کے ماضی کے سب راز اُگل دے گا اور ان کے گلے میں مفلر ڈالنے والی پارٹی چند گھنٹوں بعد ہی انہیں پتلی گلی سے نکال دے گی۔ اس بدلے ہوئے ماحول میں سیاست دانوں کو بھی اپنا کردار اور ماضی چھپانے کی بے کار تدبیریں اختیار کرنے کے بجائے اپنی کتاب زیست کو عوام کے مطالعے او مشاہدے کے لیے کھول دینا چاہیے۔
کاغذات نامزدگی میں ترمیم اپنی زندگی کے معمولات اور معاملات چھپانے کی ناکام کوشش ہے۔ سیاسی جماعتوں نے یہ روش اپنا کر اپنا قد اونچا نہیں کیا۔ جن لوگوں کی زندگی میں عوام سے چھپانے کے لیے بہت کچھ ہو انہیں سیاست کے خارزار کا رخ کرنا ہی نہیں چاہیے۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سوشل میڈیا نے عوامی کی سطح شعور کو بلند کیا ہے۔ اب ماضی کو پردوں میں مستور رکھنا ممکن نہیں رہا۔ ماضی کفن مثل قیامت بولتا ہوا سامنے آسکتا ہے اور اب لوگ اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے سے باز بھی نہیں رہتے اور میڈیا کی وسعت نے انہیں رائے ظاہر کرنے کی طاقت اور پلیٹ فارم بھی عطا کیا ہے۔ جن لوگوں کو کسی نہ کسی دور میں اپنا ماضی عیاں ہونے کا دھڑکا ہو انہیں عوامی عہدوں کے بجائے وقت گزاری اور مصروفیت کے لیے کوئی اور میدان تلاش کرنا چاہیے۔ اس سب کے باجود انتخابات کا التوا کئی مسائل کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ انتخابات کے التوا کا نتیجہ ماضی میں ہم ایک بار دیکھ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد میں بعض جماعتوں نے ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتخاب ہوا نہ احتساب بلکہ ایک طویل مارشل لا آگیا اور اس کے بعد سیاست اور وقت کے تقاضے یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے۔ یوں ایک طویل وقفے کے بعد انتخاب تو ہوا مگر اس وقفے میں سیاسی کلچر اور روایات بہہ گئی تھیں۔ سماج میں ڈی پولی ٹیسائزیشن کا عارضہ بڑھ چکا تھا اور لوگ سیاست، انتخابات اور بڑی حد تک ملکی مسائل سے لاتعلق ہو چکے تھے۔