انتخابات کا موسم آچکا ہے‘ خوب ہلہ گلہ ہوگا‘ نعرے بھی لگیں گے‘ طعنے بھی دیے جائیں گے‘ پوائنٹ اسکورنگ بھی ہوگی‘ اور میڈیا میں گرما گرم چٹ پٹی خبریں بھی ہوں گی‘ ان خبروں کو ڈیسک نیوزکہتے ہیں اور مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان ایسی خبروں کو خانہ ساز خبریں کہا کرتے تھے‘ انتخابی عمل میں جماعت اسلامی بھی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے موجود ہے‘ انتخابت سے قبل جماعت اسلامی کے پاس تین آپشن تھے‘ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کیا جائے یا تحریک انصاف کے ساتھ‘ ان دونوں کو چھوڑ کر جے یوآئی اور دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا جائے‘ یہ تیسرا آپشن تھا‘ جسے اپنا لیا گیا اب ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ جماعت اسلامی ہے کیا؟ اور ملک میں کیسی حکومت چاہتی ہے اور کیسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی بنیادی طور پر دعوتی جماعت ہے‘ جو انسانوں کو اللہ کے قانون کے عملی نفاذ کے لیے ایک تنظیم میں اکٹھے کرکے اجتماعی جدوجہد کرنا چاہتی ہے اور کر رہی ہے‘ اورا س کے لیے کسی دنیاوی اجر کی امید نہیں رکھتی بلکہ اللہ سے اجر مانگتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو اس راہ میں روڑے اٹکائے اسے بھی یہی جواب دیتی ہے کہ وہ اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لے‘ جماعت اسلامی کی یہ سوچ‘ فکر اور طرز عمل کسی دوسری جماعت کے پاس نہیں ہے کیوں کہ دوسری جماعتیں خالصتاً سیاسی جماعتیں ہیں‘ صرف جماعت اسلامی ہی اس ملک میں قرآن کے نظام کے نفاذ کی عملی شکل کے لیے جدوجہد کر رہی ہے لہٰذا آج کا میڈیا اور آج کی صحافت پر بہت سے سوالات ا ٹھائے جاسکتے ہیں۔
مادہ پرستی کا دور ہے تو ہر کوئی ظاہری خوش نمائی میں مبتلا ہے‘ اور اندر سے کھوکھلا ہے‘ مال بیچنے کے لیے خاتون بطور اشتہار استعمال کی جاتی ہے‘ پراپرٹی کا کام صرف فائل بیچنے تک رہ گیا ہے‘ کبھی کسی کو بس میں سفر کے دوران سرما‘ دانت کی دوا‘ پیٹ کی درد کے لیے پھکی بیچنے والوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہوگا تو ضرور ساری بات سمجھ رہے ہوں گے‘ 1970 کے انتخابات کے دوران اس وقت کے میڈیا میں مولانا مرحوم کے لیے کیا کچھ نہیں چھاپا گیا؟ الحفیظ الاامان‘ لیکن مجال ہے مولانا نے کوئی لغو بات جواب میں کہی ہو‘ آج کل انتخابی ماحول میں سیاسی جماعتیں بھی ایسا ہی سودا بیچ رہی ہیں لیکن جماعت اسلامی ایک واحد یکتا جماعت ہے جو یہ طرز عمل اختیار نہیں کرتی کہ اس کا پروگرام اور منشور اور دستور اس کی اجازت نہیں دیتا‘ جماعت اسلامی کی تشکیل کسی وقتی ابال کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ بہت سوچ سمجھ کر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ جماعت اسلامی کو قائم ہوئے 77 سال ہوچکے ہیں‘ اس تنظیم کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب بر صغیر کے مسلمان ایک الگ مسلم ریاست حاصل کرنے کے لیے منٹو پارک میں قرارداد پاکستان منظور کرچکے تھے یہ قرارداد شاعر مشرق علامہ اقبال کے تصور کے عین مطابق تھی۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی ایک دوسرے کو کتنا سمجھتے تھے اس کی ایک مثال یہاں دی جاسکتی ہے کہ مولانا کو پٹھان کوٹ سے لاہور آنے کا مشورہ علامہ ہی نے دیا تھا۔ برصغیر کے دونوں رہنماء فکری اعتبار سے اعلیٰ درجے کی صفات کے حامل ہیں اقبال کی شاعری‘ شاعری نہیں بلکہ ایک پیغام اور جادو ہے‘ اسی طرح امت مسلمہ کی اصلاح احوال کے لیے مولانا کی تحریک اور فکری سوچ واقعی انقلاب کا پیغام ہے ۔
جب جماعت اسلامی کی تشکیل ہورہی تھی ترجمان القرآن کے الفاظ میں سب کچھ ہمارے سامنے ہے یہ الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں اس وقت اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برعظیم کے مسلمانوں کو اپنے ملّی تشخص کے حوالے سے شدید کش مکش کا سامنا تھا سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد برطانوی سامراج نے مسلمانوں کو سیاسی، معاشی، مذہبی، اخلاقی، ثقافتی، ہر حیثیت سے غلام بنانے کی کوشش کی۔ مسلمانوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور جدوجہد کی۔ 1857ء کی جنگِ آزادی اور سید احمد شہیدؒ کی تحریکِ جہاد اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمانوں کی حالت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی جو مغربی فکر سے مغلوب ہوچکی تھی۔ لیکن مجموعی طور پر مسلمانوں نے اس راستے کو اختیار نہیں کیا تھا۔ ایک کش مکش جاری تھی۔ ایک گروہ نے نئے تقاضوں سے بالکل آنکھیں بند کر کے ماضی کی تقلید کا فیصلہ کرلیا تھا۔ بیسویں صدی میں برعظیم کے حالات نے ایک نیا رُخ اختیار کرلیا۔ نئی تحریکیں اُبھر کر سامنے آئیں۔ سیاست کا انداز بدلنے لگا، جمہوری طریقے فروغ پانے لگے۔ انگریز سے نجات اور آزادی کی تحریک آگے بڑھتی محسوس ہورہی تھی۔ ہندو مسلم اتحاد کا چرچا تھا، مسلم قومیت کا مسئلہ بھی درپیش تھا، جمہوری طریقے پر انتخابات کے نتیجے میں ہندو غلبہ واضح تھا۔ مسلمان اپنے ملّی تشخص اور تہذیب و تمدن کا تحفظ بھی چاہتے تھے مگر ان کو کوئی راہ نہیں سوجھ رہی تھی۔ ایسی قیادت بھی سامنے نہیں تھی جو صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔ سیاسی طور پر قیادت کرنے والا گروہ اسلام کے تصور اور تہذیبی و تمدنی تقاضوں سے نابلد تھا اور مغربی اور جمہوری انداز میں مسائل کا حل چاہتا تھا۔ علما ماضی میں ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے تھے مگر وہ نئے حالات اور جدید تقاضوں سے ناواقف تھے اور اب اس پوزیشن میں بھی نہ رہے تھے کہ قیادت کر سکیں۔ ایک نیا انقلاب تھا جو ہر صاحبِ فہم کو بصیرت کی آنکھوں سے اُمڈتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کو صحیح خطوط پر رہنمائی کی ضرورت تھی مگر صحیح فکر اور درست سمت میں رہنمائی کے لیے قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان ایک مخمصے کا شکار تھے۔ ان حالات میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے احیائے اسلام اور ملت اسلامیہ کی صحیح سمت میں فکری رہنمائی اور جدوجہد کے لیے قلم و قرطاس اور صحافت کے میدان کو چُنا۔ ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ وہ پرچہ تھا جس سے آپ نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔
مولانا مودودیؒ کی ادارت میں پہلا شمارہ محرم 1325ھ/ مئی 1933ء میں شائع ہوا۔ پہلے اداریے میں انہوں نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ پیش نظر کام قرآنِ مجید کے پیغام کو اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا، اور اس کے حقائق و معارف کو اس سیدھے سادے طریقے سے سمجھانا ہے جس طرح قرنِ اوّل کے سچے مسلمان سمجھتے اور سمجھاتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں جماعت اسلامی کی دعوت قرآن کا پیغام ہی ہے اس پیغام میں نفس امارہ اور نفس لوامہ کا بہت خیال رکھنا ہوتا ہے۔ مولانا کے قلم نے جو کچھ بھی لکھا اس نے ایک عہد کی تعمیر کی اور ملّت اسلامیہ کی بیداری میں نمایاں کردار ادا کیا ایک چھوٹا سا حصہ ترجمان القران کے حصے میں آیا ’ترجمان القرآن‘ نے علمی و عقلی بنیادوں پر اسلام کے تصور کو اُجاگر کیا، عصرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق مسائل زندگی کا حل پیش کیا اور اسلام کو ایک نظامِ زندگی کے طور پر واضح کیا۔ اس نے اس فکر کے حاملین کو عملاً مجتمع اور منظم کرنے اور اسلامی تعلیمات کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے ’’جماعت اسلامی‘‘ کے قیام میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ ’ترجمان القرآن‘ ہی کے ذریعے مولانا مودودیؒ نے حساس ذہنوں اور دردمند دلوں کو احیاے اسلام کے لیے تیار کیا اور عملاً ایک تحریک برپا کر دی‘ ترجمان القرآن کا کوئی بھی شمارہ اٹھا کر دیکھ لیں کسی بھی شمارے میں جماعت اسلامی میں یہ بو محسوس نہیں ہوگی کہ یہ ایک سیاسی جماعت ہے یہ تو ایک دعوتی جماعت ہے اور اس دعوت کا یک کھلا پیغام یہ ہے کہ جماعت اسلامی میں مال و دولت نہیں بلکہ علم و حکمت کی پوجا ہوگی۔