نگران در نگران وزیر اعظم

342

شاہد خاقان عباسی اپنی وزرات عظمیٰ کے دن پورے کرکے ایوان اقتدار سے رخصت ہوگئے۔ انہیں گارڈ آف آنردے کر رخصت کیا گیا اور وہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے کے آخری لمحے تک کام کرتے رہے۔ جاتے جاتے انہوں نے پٹرولیم مصنوعات میں آٹھ روپے کا اضافہ کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی کی ایوان وزیر اعظم سے رخصتی کے ساتھ ہی اس ایوان میں جسٹس ناصر الملک نے تین ماہ کے لیے قدم رنجہ فرمایا۔ جسٹس ناصر الملک تین ماہ میں ملک میں انتخابات کے انتظام وانصرام کی نگرانی کریں گے اور وہ کس طرح ایوانوں سے رخصت ہوں گے یہ تو آنے والے وقت ہی بتائے گا۔ ناصر الملک تو مسلمہ اور اعلانیہ بلکہ آئینی نگران وزیر اعظم ہیں مگر ان کے پیش رو شاہد خاقان عباسی نے بھی اپنا دور اقتدار ایک نگران کے طور پر ہی گزارا۔ یوں اس آمد ورفت کو نگران در نگران کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ رخصت ہونے والے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا تعلق شمالی پاکستان کے معروف سیاحتی اور پہاڑی علاقے مری سے تھا اور وہ ایک سیاسی بھونچال اور حادثے کے نتیجے میں اس منصب تک پہنچ سکے تھے۔ میاں نوازشریف کی پاناما کیس میں نااہلی نے کئی لوگوں کے ایوان اقتدار میں پہنچنے کے امکانات پیدا کیے تھے۔ ان میں میاں نواز شریف کے کئی دست راست اور مسلم لیگ ن کے کئی نامی گرامی لیڈر بھی شامل تھے۔ ان میں خودنمائی کے خوگر اور خوش گفتار اور میڈیا میں ہمہ وقت زندہ رہنے والے کئی راہنما بھی شامل تھے مگر قرع�ۂ فال حیرت انگیز طور پر ایک مرنجان مرنج شخص شاہد خاقان عباسی کے نام نکلا۔ جن کی وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کی طرح سیاست میں آمد بھی حادثاتی ہے۔ ان کے والد خاقان عباسی جنرل ضیاء الحق کے زیر اثر محمد خان جونیجو حکومت کے وزیر تھے جب اوجڑی کیمپ میں دھماکے ہوئے اور انہی دھماکوں میں وفاقی وزیر خاقان عباسی بھی جاں بحق ہوئے۔ خاقان عباسی کے ساتھ ایک بیٹا جسے ان کا ممکنہ جانشین سمجھا جاتا تھا شدید زخمی ہو کر کومہ میں چلا گیا۔ اس حادثے نے شاہد خاقان عباسی کے سیاست میں داخلے کی راہ ہموار کی اور وہ ایک حادثے کے نتیجے میں سیاست میں سرگرم ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے ہر الیکشن جیت کر ریکارڈ قائم کیا۔ اب پاناما کیس کے فیصلے کے بعد بالکل اسی حادثاتی انداز میں شاہد خاقان عباسی بہت سے نامی گرامی حکمران گھرانوں کے وابستگان کو پیچھے دھکیل کر وزیر اعظم بن گئے۔ ان کی وزارت عظمیٰ کا دور درحقیقت میاں نواز شریف کے دور کا تسلسل ہی تھا۔ کہنے کو شاہد خاقان وزیر اعظم تھے مگر فیصلہ سازی کا مرکز بدستور جاتی امراء اور اس کے مکین میاں نواز شریف ہی رہے۔ خود شاہد خاقان عباسی برملا کہتے رہے کہ اصل وزیر اعظم نوازشریف ہی ہیں۔ اس طرح ان کی حیثیت نمائشی ہی رہی۔
شاہد خاقان عباسی کے لیے وزرات عظمیٰ پل صراط کا سفر تھا۔ ایک طرف پارٹی کے قائد میاں نواز شریف تھے جو آماد�ۂ جنگ تھے اور اپنی نااہلی کے فیصلے پر منقازیر پا تھے اور ردعمل میں سب کچھ بھسم کر رکھے دینا چاہتے تھے تو دوسری طرف ملک کی ہیت مقتدرہ تھی جو وزیر اعظم کے آئینی عہدے کے ذریعے من پسند فیصلے چاہتی تھی۔ سیاسی فضا کو نارمل رکھنا اور کسی اتھل پتھل کو روکے رکھنا چاہتی تھی۔ شاید خاقان عباسی نے کمال مہارت سے یہ مشکل ترین ’’ڈبل رول‘‘ ادا کیا۔ انہوں نے دم سادھ کر پل صراط کا سفر طے کرلیا۔ ضرورت پڑی تو میاں نواز شریف کے موقف کی پوری قوت سے بات کی اور پھر ضرورت پیش آئی تو اداروں کے احترام کی بات بھی بالیقین کر دی۔ اس حکمت عملی نے انہیں کسی نئی مشکل میں پھنسنے سے بچائے رکھا۔ شاہد خاقان ملکی سیاست پر کوئی انمٹ نقش قائم کیے بغیر ہوا کے جھونکے کی طرح آئے اور گزر گئے۔ ان کا دور اقتدار کسی حادثے کا شکار نہیں ہوا یہی ان کی کامیابی ہے وگر نہ شیخ رشید جیسے شکاری قطر گیس معاہدے کا جال پھینک کر ان کی تاک میں بیٹھے رہے۔ شاید خاقان کی رخصتی کے بعد جسٹس ناصر الملک ایوان وزیر اعظم میں داخل ہوگئے ہیں مگر شاہد خاقان عباسی کی طرح ان کا دور اقتدار بھی محدو د یعنی تین ماہ پر محیط ہوگا۔ نگران وزیر اعظم کی سیاسی اور روایتی وابستگی پیپلزپارٹی سے رہی ہے اور اسی وابستگی کی بنیاد پر وہ خیبر پختون خوا کے ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے ہیں مگر انہیں ذاتی حیثیت میں ایک شریف اور نفیس انسان مانا اور جانا جاتا ہے۔ وہ اپنے تین ماہ ایوان اقتدار میں کس طرح گزارتے ہیں یہ ان کا امتحان ہے۔ نگران وزیر اعظم کو بھی صاف وشفاف انتخابات کے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ ملکی سیاسی فضا بری طرح مکدر اور آلودہ ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات دشمنی کی حدوں کو چھو رہے ہیں اور سوشل میڈیا اس مکدر سیاسی فضاء پر مزید تیل چھڑک کر آگ بھڑکانے کی قدرت رکھتا ہے۔ خود الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کی سازشوں کے خدشات ظاہر کیے جا چکے ہیں۔ ایسے میں جانے والے وزیر اعظم کی جان مسائل اور مشکلات سے چھوٹ گئی مگر ان کی جگہ آنے والے نگران وزیر اعظم نے چیلنجز کی دلدل میں قدم رکھ دیا ہے۔