مولی مولی ہوتی ہے کسی کھیت کی بھی ہو

464

عبدالستار ایدھی کئی سال قبل مر گئے ورنہ آج ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کس کھیت یا باغ کی مولی ہیں کہ سب لوگ آپ ہی کو عطیات، کھالیں، کھانا، حتیٰ کہ بچے بھی دے جاتے ہیں۔ اور ایدھی صاحب ہی کیا اچھا ہوا حکیم سعید بھی پہلے ہی دنیا سے چلے گئے ورنہ ان سے بھی پوچھا جاسکتا تھا کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں اور امجد صابری جن کا چرچا ہے کہ ان سے بڑا قوال نہیں تھا اگر ان سے بھی پوچھ لیا جاتا یا فخرالدین جی ابراہیم سے بھی پوچھ لیا جاتا کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ یہ لوگ تو مر گئے جو زندہ ہیں وہ بھی محتاط رہیں۔ کہیں ان کو طلب نہ کرلیا جائے، کوئی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو بلا کر یہ نہ پوچھ لے کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہر کوئی آپ کو زکوٰۃ دے رہا ہے، اسپتال کے لیے عطیات دیے جارہے ہیں، یہ کروڑوں کا معاملہ ہے، ادیب صاحب آپ ہی کو لوگ کروڑوں کے عطیات اور روپے کیوں دیتے ہیں اور ہاں نعمت اللہ خان کے نام پر بھی کروڑوں روپے زکوٰۃ الخدمت کو مل جاتی ہے۔ بلاوجہ طلب کرکے کوئی سوال نہ کر ڈالے کہ آپ ہیں کس کھیت کی مولی۔۔۔ اس کھیت کی مولی کے معاملے نے دل میں یہ سوال پیدا کیا کہ آخر کھیت کی مولی میں سے اہمیت کس کی ہے۔ کھیت کی یا مولی کی۔ سوال کے انداز سے تو لگتا ہے کہ اہمیت کھیت کی ہے کسی خاص کھیت کی مولی ہو تو زیادہ مہنگی اور اچھی ہوتی ہوگی۔ لیکن یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کھیت اچھا ہو یا برا مولی میں کون سی اچھائی پیدا ہوجاتی ہے۔ ہمیں تو مولی کوئی زیادہ پسند نہیں پتا نہیں مولی سے کچھ لوگوں کو الرجی کیوں ہوتی ہے۔ جب کہ مولی مولی ہوتی ہے کسی بھی کھیت کی ہو۔ یقین نہ آئے تو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی سے پوچھ لیں۔ وہ بھی یہی بتائیں گے کہ مولی مولی ہوتی ہے کسی بھی کھیت کی ہو۔
آج کل تو پاکستان کی خاطر امریکا، یورپ وغیرہ چھوڑ آنے والے سانس روکے بیٹھے ہیں کہ کہیں کوئی ان سے نہ پوچھ لے کہ آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ شکر ہے سرجن محمد علی شاہ بھی انتقال کرچکے ورنہ ان سے بھی پوچھا جاسکتا تھا کہ ایک ٹانگ کے آپریشن کے اتنے زیادہ پیسے لیتے ہو۔ کس کھیت کی مولی ہو۔ وہ بے چارہ سوچتا کہ ولایت چھوڑ کر کیوں آیا اتنی اوقات بھی نہیں کہ حضور نظام کے بیگن سے مثال دے دی جاتی، ہم بیرون ملک سے پرتعیش زندگی چھوڑ کر آئے اور پاکستان کی خدمت کررہے ہیں یہاں ہمارا موازنہ مولی سے کیا جارہا ہے۔ ایک شخص طب کے شعبے میں 30 برس سے خدمات پیش کررہا ہو، کئی اسپتال اور ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنا چکا ہو، امریکا میں کروڑوں روپے پاکستان کے مساوی کمالیتا ہو، کئی برس سے الشفا اسپتال میں پانچ کمرے کرائے پر لے کر مریضوں کا مفت علاج کرتا ہو، پاکستان میں گردے کی پیوندکاری کا پہلا اسپتال بنادے اور پاکستانیوں کے اربوں روپے ماہانہ بچانے کے لیے ان کو گردہ مافیا سے نجات دلا دے وہ شخص اگر کروڑوں روپے کے بجائے محض2 لاکھ روپے تنخواہ وصول کرے اور اس سے پوچھ لیا جائے کہ تم کس کھیت کی مولی ہو۔ ارے اتنے بڑے آدمی کو تو چھوڑیں۔ ہم سے یا آپ سے کوئی پوچھ بیٹھے کہ کس کھیت کی مولی ہو تو ہم رنجیدہ ہوجاتے ہیں کہ اس کی ہمیں اس طرح پکارنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ اور ہمارا یہ حال ہے کہ ہم خود لوگوں سے یہ سوال کررہے ہوتے ہیں کہ تم کس کھیت کی مولی ہو۔
یہ تو خیر اتفاق ہے کہ آج کل کھیت کی مولی کا ذکر بہت ہوگیا ہے لیکن یہ کمبخت سوشل میڈیا ہر ایک کو رگڑ رہا ہے، نام نہاد مرکزی میڈیا چوں کہ دوسرے کاموں میں مصروف ہے، اب آپ بتائیں کہ ایک سیاسی رہنما کی دوسری اعلانیہ بیوی نے عین انتخابی مہم کے وقت اپنی کتاب کا شوشا چھوڑا ہے اور مرکزی دھارے کا میڈیا اس دھارے میں ایسا بہہ رہا ہے جیسے پاکستان کا اولین مسئلہ ریحام خان کی کتاب ہے۔ ریحام نے ایسا کیا لکھا ہے جو پاکستانی قوم کو نہیں معلوم۔ لیکن کتاب آنے سے قبل اس پر شور مچایا گیا ہے ٹی وی اور اخبارات باقی کام سوشل میڈیا کا۔ سب پر ریحام کی کتاب بھری ہے تو ہم کیا کریں۔ ہم نہیں آپ کیا کریں ذرا غور کریں کہ ریحام کی کتاب کا الیکشن سے تعلق ہے یا کسی اور کتاب سے۔ اس سے قبل میڈیا میں صرف جنرل اسد درانی کی کتاب کا ذکر تھا۔ اب آپ اور ہم سب یہ بھول چکے ہیں ریحام کی کتاب ہے اور آپ ہیں۔ آپ ہیں کس کھیت کی مولی، اچھا ایسا کریں ایک لطیفہ پڑھ لیں بس شرط یہ ہے کہ اس لطیفے کو کسی واقعے یا مولی سے ملانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہوا یوں کہ ایک مقدمے میں کسی گاؤں کی ایک سیانی بڑھیا کو گواہی کے لیے طلب کیا گیا اور وکیل استغاثہ نے نہایت چالاکی سے سوال کیا کہ کیا تم مجھے جانتی ہو۔ اس سے قبل کہ بڑھیا پریشان ہوتی اس کی زبان چل پڑی کہ ہاں تم میں یہ یہ خرابیاں ہیں چرس بیچتے ہو لوگوں کے پیسے کھا جاتے ہو، بیوی سے بھی جھگڑتے ہو، اس کے بارے میں ایسی ہی بہت سی باتیں کر ڈالیں تو وکیل نے گھبرا کر وکیل صفائی سے کہا کہ آپ سوال کریں۔ اس وکیل نے بڑے اعتماد سے پوچھا کیا تم مجھے جانتی ہو۔ بڑی بی پھر شروع ہوگئیں اور دنیا جہاں کی خرابیاں قرضے لڑائی جھگڑے کے الزامات۔ بس یہ نہیں پوچھا کہ تو ہے کس کھیت کی مولی۔ اس صورت حال کو دیکھ کر جج نے دونوں وکیلوں کو بلایا اور کان میں کہا کہ اس عورت سے یہ نہ پوچھنا کہ یہ مجھے جانتی ہے۔ اگر یہ سوال کیا تو تم دونوں کو پھانسی دے دوں گا۔ آخر تم ہو کس کھیت کی مولی۔ لیکن کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی خاص کھیت کی مولی یہ بھی بتادیتی ہے کہ میں کس کھیت کی مولی ہوں۔