رمضان اور اعتکاف

455

رمضان کے مبارک دن بڑی تیزی سے گزر رہے ہیں، اس کا آخری عشرہ بس شروع ہو چکاہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ روزہ دار کو رمضان کے آخری عشرے میں جہنم سے نجات کا پروانہ ملتا ہے جب کہ اس سے پہلے کے دو عشروں میں رحمت اور مغفرت کی نوید دی گئی ہے۔ آخری عشرے کی خاص بات اعتکاف ہے۔ اعتکاف کہتے ہیں اپنے آپ کو روکنے اور یکسو کرنے کو۔ شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف ایک ایسی عبادت کا نام ہے جس میں روزے دار رمضان کے آخری عشرے میں خود کو مسجد کے ایک گوشے میں پابند کرکے اللہ کی عبادت میں جُت جاتا ہے۔ خواتین گھروں میں اپنے لیے کوئی کمرہ مخصوص کرکے وہاں معتکف ہوجاتی ہیں۔ نبی پاکؐ نے رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کے بعد اس کے آخری عشرے میں اعتکاف کو ہمیشہ اپنا معمول بنائے رکھا۔ آپؐ اس کے لیے مسجد نبویؐ کا ایک گوشہ اپنے لیے خاص کرلیتے تھے اور اپنے ربّ کی عبادت میں منہمک ہوجاتے تھے۔ ازواج مطہرات بھی اپنے اپنے حجروں میں اعتکاف کا اہتمام کرتی تھیں۔ رمضان کے آخری عشرے کا خاص الخاص وصف یہ ہے کہ اس کی طاق راتوں میں سے کسی ایک میں لیلتہ القدر جلوہ افروز ہوتی ہے جس کے بارے میں قرآن نے یہ گواہی دی ہے کہ یہ ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ یعنی آدمی ہزار مہینے مسلسل عبادت کرکے (جوناممکن ہے) اللہ کی جتنی برکتیں اور رحمتیں سمیٹ سکتا ہے اس سے کہیں زیادہ اسے اس ایک رات میں عبادت سے حاصل ہوجاتی ہیں۔ یہ رمضان المبارک میں روزہ داروں اور خاص طور پر معتکفین پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جس سے انہیں نوازا گیا ہے۔
اعتکاف ایک ایسی سنت ہے جس کا مسلمان معاشرے میں ہمیشہ اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی اسے خصوصی اہمیت و مقبولیت حاصل ہے۔ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا ہے تو مسجدیں معتکفین سے بھر جاتی ہیں اور ہر معتکف اپنے لیے پردہ ڈال کر الگ خلوت گاہ قائم کرلیتا ہے جہاں وہ مسجد کے ہال میں جماعت کے ساتھ نمازوں کی ادائیگی اور تراویح کے بعد تخلیہ میں اللہ سے لو لگاتا ہے۔ یہ خالص انفرادی عبادت ہے جس کا اندازہ خود حضور پاکؐ کے طریقہ اعتکاف سے لگایا جاسکتا ہے۔ اگر یہ اجتماعی عبادت ہوتی تو نبی کریمؐ مسجد کے ایک گوشے میں خود کو پابند کرنے کے بجائے صحابہ کرامؓ میں گھل مل جاتے اور انہیں اپنے ساتھ اللہ کے ذکر کی ترغیب دیتے لیکن آپؐ
نے ایسا نہ کیا اور پورے دس دن تک اپنی ازواج مطہرات اور رفقائے کرام سے الگ تھلگ رہے۔ لیکن ہمارے ہاں اعتکاف کا جو طریقہ رائج ہے اس میں اسے اجتماعی عبادت کی شکل دے دی گئی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو باقاعدہ ’’شہر اعتکاف‘‘ آباد کرنے کی بدعت قائم کی ہے جس میں مردوں اور عورتوں کے الگ الگ شامیانے لگائے جاتے ہیں اور عورتیں بن ٹھن کے اعتکاف میں شریک ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ اعتکاف ایک ثقافتی میلہ بن جاتا ہے۔ بعض مذہبی جماعتیں بھی اجتماعی اعتکاف کا اہتمام کرتی ہیں، یہ بندوبست بڑی جامع مساجد میں کیا جاتا ہے لیکن ان کے دینی پروگراموں کا شیڈول اتنا ٹائٹ ہوتا ہے کہ بیچارے معتکفین انفرادی عبادت کے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے۔ حالاں کہ اعتکاف نام ہی انفرادی عبادت اور یکسوئی کا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے نوجوانوں میں اعتکاف کا رجحان بڑھ رہا ہے یہ بہت اچھی اور خوشگوار علامت ہے، قیام اللیل میں نوجوانوں کی تعداد خاصی ہوتی ہے لیکن بُرا ہو جدید ٹیکنالوجی کا جس نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ نوجوان بالعموم اسمارٹ فون اپنے پاس رکھتے ہیں اور اعتکاف کے دوران باہر اپنے دوستوں سے گپیں لگاتے رہتے ہیں۔ فون پر قہقہے بھی لگتے ہیں لطیفے بھی سنائے جاتے ہیں اور اعتکاف کو یوں انجوائے کیا جاتا ہے جیسے پکنک پر آئے ہوں۔
اعتکاف میں غسل واجب کے سوا روزانہ نہانا سنت سے ثابت نہیں ہے لیکن گرمیوں میں بالعموم دیکھا گیا ہے کہ جن مساجد میں اجتماعی اعتکاف کیا جاتا ہے وہاں غسل خانوں کے باہر معتکفین کی قطاریں لگی رہتی ہیں اور ہر شخص نہانے کے لیے بے چین نظر آتا ہے۔ حالاں کہ گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے جسم پر گیلا کپڑا بھی پھیرا جاسکتا ہے۔ اعتکاف کے دوران ایک اور مشاہدہ بھی ہوا، جو لوگ کلین شو ہیں وہ اعتکاف میں شیو کا سامان بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور سورج نکلتے ہی ڈاڑھی صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اس میں استثنا بھی ہے، بعض نوجوان یہ تکلف نہیں کرتے اور اعتکاف کی برکت کے باریش ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض معتکفین اپنے ساتھیوں کے ساتھ مذہبی بحثوں میں بھی اُلجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر وقت کا ضیاع ہے۔
اس تحریر کا واحد مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اعتکاف کی اہمیت و فضیلت سے آگاہ کیا جائے وہ اسے خالص انفرادی عبادت سمجھ کر اس کے ایک ایک لمحے کو قیمتی بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوطی سے استوار کریں۔ کیا خبر یہ اعتکاف ہماری زندگی کا آخری اعتکاف ہو۔