نگراں حکومتوں کا قیام آئین کا تقاضا ہے لیکن موجودہ صورت حال ملک کے لیے اذیت کا باعث ہے اور میری طرح عوام کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ عام انتخابات کے لیے آخر نگران حکومت کے قیام کے لیے اس طویل الجھاؤ کا کیا فائدہ۔
ساری دنیا میں جہاں ویسٹ منسٹر کے طرز کا پارلیمانی جمہوری نظام ہے وہاں خاص طور پر عام انتخابات کے لیے نگران حکومت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ برسر اقتدار حکومتیں ہی عام انتخابات کے دوران نگران حکومتیں تسلیم کی جاتی ہیں اور ان ہی کی نگرانی میں الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کا ذمے دار ہوتا ہے۔ نگران حکومت صرف اسی صورت میں قائم کی جاتی ہے جب کہ بر سر اقتدار حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں یا خود مستعفی ہونے کی صورت میں باقی نہ رہے یا جنگ کی ہنگامی صورت حال سے دوچار ہو۔
امریکا میں جہاں پارلیمانی جمہوری نظام نہیں ہے، صدر کے استعفے یا مواخذہ کے بعد یہ عہدہ خالی ہونے پر نائب صدر حکومت سنبھالتا ہے اور وہی ایسا نائب صدر مقرر کرتا ہے جس کا آئندہ انتخاب لڑنے کا ارادہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر صدر نکسن کے استعفے کے بعد نائب صدر فورڈ نے صدارت سنبھالی اور نیلسن راک فیلر کو نائب صدر مقرر کیا تھا۔
اٹلی میں صدر، ماہرین پر مشتمل نگران حکومت نامزد کرتا ہے۔ یہی حکومت انتخابات کے انعقاد کی ذمے دار ہوتی ہے۔ ان ملکوں میں جہاں عام طور پر مخلوط حکومتوں کی روایت ہے وہاں نگران حکومت کا قیام لازمی تصور کیا جاتا ہے۔
بنگلا دیش میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے نگران وزیر اعظم کے تقرر کا سلسلہ سن نوے کے وسط سے شروع ہوا تھا لیکن 2013 میں آئینی ترمیم کے ذریعہ یہ طریقہ ترک کردیا گیا تھا۔
پاکستان میں نگران حکومت کے قیام کا سلسلہ، اگست 1990 سے شروع ہوا تھا جب صدر غلام اسحاق نے بے نظیر بھٹو کی حکومت بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دی تھی اور عام انتخابات کے انعقاد کے لیے غلام مصطفی جتوئی کو تین ماہ کے لیے نگران وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ ظاہر ہے اس وقت کوئی حکومت بر سر اقتدار نہیں رہی تھی اس لیے نگران وزیر اعظم کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اسی طرح 1993میں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے بعد بلخ شیر مزاری کو نگران وزیر اعظم مقرر کیا گیا، پھر صدر غلام اسحاق اور نواز شریف دونوں کے استعفوں کے بعد فوج کے سربراہ عبد الوحید کاکڑ کے مشورہ سے معین قریشی کو نگران وزیر اعظم کے فرائض کے لیے سنگاپور سے پاکستان طلب کیا گیا۔ پھر 1996 میں جب صدر لغاری نے بے نظیر بھٹو کو برطرف کیا تو ملک معراج خالد سے نگران وزیر اعظم کی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے کہا گیا جن کے دور میں منعقد ہونے والے انتخابات میں نواز شریف بھاری اکثریت سے فتح مند ہوئے۔ پھر 2010 میں سیاست دانوں نے نگران حکومت کے قیام کی روایت کو آئین کی اٹھارویں ترمیم میں دوام بخشا اور نگران وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے حکومت اور حزب مخالف کے درمیاں اتفاق رائے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔
اس وقت بظاہر تو یہ روایت قابل تقلید محسوس کی گئی لیکن یہ نہیں سوچا گیا کہ اول تو نگران وزیر اعظم کی نامزدگی پر اتفاق رائے کس قدر دقت طلب ہوگا دوسرے اس بنیادی بات پر کسی نے نہیں غور نہیں کیا کہ انتخابی دھاندلی وزیر اعظم کی سطح پر نہیں ہوتی۔ یہ دھاندلی دراصل پولنگ اسٹیشنوں پر اور ووٹوں کی گنتی کے مرحلہ پر ہوتی ہے۔ نگران وزیراعظم چاہے کتنا ہی ایماندار اور مخلص کیوں نہ ہو وہ کس طرح ملک کے ہزاروں پولنگ اسٹیشنوں پر نگرانی کر سکتا ہے۔ دوسرے انتخابی دھاندلی کے ذمے دار دراصل حکومت کے اعلیٰ افسر اور عمل دار ہوتے ہیں جیسے کہ 1976ء کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کو دو تہائی اکثریت سے زیادہ کا سہرا پہنانے کے لیے سرکاری افسروں نے اندھا دھند انتخابی دھاندلی کی اور بھٹو کو دولہا بنانے کے بجائے انہیں سیاسی قبر میں اتار دیا۔
نہ جانے لوگ اتنی جلدی کیوں بھول جاتے ہیں کہ پچھلے عام انتخابات بھی نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کے دور میں ہوئے تھے۔ انہیں حکومت اور حزب مخالف کے اتفاق رائے کے تحت مقرر نہیں کیا گیا تھا بلکہ اتفاق رائے میں ناکامی کی صورت میں الیکشن کمیشن نے چار ناموں میں سے چنا تھا۔
صالح اور ایماندار میر ہزار خان کھوسو، ان انتخابات کو کلی طور پر شفاف نہ بنا سکے۔ خود چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے اعتراف کیا کہ وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات، خاص طور پر کراچی میں کرانے میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے اس عہدے سے مستعفی ہونے کو ترجیع دی۔
تحریک انصاف کے عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کے بل پر دھرنا دیا تھا۔ اور نواز شریف کے خلاف مہم چلائی تھی۔ اس تجربہ کی بنیاد پر کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا تقرر لازمی ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب رواج، امیدواروں کے متعدد حلقوں سے انتخاب لڑنے کا ہے، جو یکسر ختم ہونا چاہیے۔ ایک تو کوئی ان امیدواروں سے پوچھے کہ اتنے زیادہ حلقوں میں آپ انتخابی مہم کس طرح چلا سکتے ہیں اور کس بنیاد پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ آپ ان حلقوں کے عوام کے مسائل سے آگاہ ہیں۔
برطانیہ میں کوئی امیدوار اپنے حلقہ انتخاب کے سوا جسے وہ اپنے درخت کی طرح نشوونما اوراس کی حفاظت کرتا ہے کسی اور حلقہ سے انتخاب نہیں لڑتا۔ پھر پارٹی کی طرف سے اسے اس حلقہ کے عوام کی خدمت پر مامور کیا جاتا ہے اس لیے وہ اپنا فرض سمجھتا ہے کہ وہ اس حلقہ سے انتخاب ہارنے کے بعد بھی اس حلقہ کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہے اور اس حلقہ میں اپنی سرجری (دفتر) کو باقاعدہ طور پر برقرار رکھ کر ووٹروں کی بلا امتیاز خدمت کرتا رہے۔ یہ ہے حقیقی جمہوریت کا پہلا زینہ۔
جمہوریت کی ایک اور اہم دہلیز پاکستان میں یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے وہ ہے بلدیاتی ادارے۔ یہی جمہوریت کی جڑ ہے جو جمہوریت کے درخت کو سر سبز شاداب رکھتی ہے۔ برسوں گزر جاتے ہیں پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے انتخاب نہیں ہوتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اپنا رقیب تصور کرتی ہیں اور انہیں عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے ترقیاتی فنڈ پر قبضہ جما کر اپنی انا کو تسکین پہنچاتی ہیں۔
پاکستان میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور اسے صحیح معنوں میں جمہوری روح سے روشناس کرانے کے لیے جو بنیادی اصلاحات اور اقدامات لازمی ہیں ان پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ سارا زور زیبائش کے طور پر نگران حکومتوں کے قیام پر دیا جاتا ہے اور پھر انتخابات کے بعد الزام تراشیوں کا بے انت سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ موجودہ سیاست دان ان اصلاحات سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ ان کی پر زور مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ انہیں خطرہ ہے کہ وہ خود ان اصلاحات سے بھسم ہو جائیں گے۔
اس کی کبھی کوشش نہیں کی گئی کہ الیکشن کمیشن کو آزاد اور طاقت ور بنایا جائے۔ اگر اپنے پڑوس میں اور دوسرے ملکوں کی طرح الیکشن کمیشن کو آزاد، خود مختار اور تمام سیاسی اثرات اور دباؤ سے پاک بنایا جائے تو عام انتخابات کے لیے نگران حکومت کے قیام کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ جتنا وقت نگران حکومت کے قیام پر لگتا ہے اگر اتنا وقت پارلیمنٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے انتخاب پر لگایا جائے تو حقیقی معنو ں میں عام انتخابات شفاف طور سے منعقد ہو سکتے ہیں۔
در اصل ملک کا جاگیرداری نظام حقیقی جمہوری انتخابات کی راہ میں ایک ایسی فصیل کی صورت میں حائل ہے جس کو سر کرنا محال ہے۔ سندھ میں وڈیرے، پنجاب میں چودھری اور بلوچستان اور خیبر پختوں خوا میں سردار اپنے مزارعوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان مزدوروں پر دباؤ ڈال کر اپنے جبر واستبداد کے بل پر ووٹ ڈلواتے ہیں، یہ نہ صرف انسانیت کا بلکہ جمہوریت کا مذاق ہے۔ اس المناک صورت حال کی اصلاح اس بناء پر ممکن نہیں کہ آخر کار قانون سازی کے لیے قومی اسمبلی میں جانا پڑے گا لیکن وہاں تو تین چوتھائی یہی وڈیرے اور جاگیر دار بیٹھے ہیں۔
پھر المیہ تو یہ ہے کہ ایک دو کے سوا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے سیاسی جاگیروں کا روپ دھار لیا ہے ان سے اور ان کے قائدین سے یہ توقع کرنا آسمان سے تارے توڑنے کے مترادف ہے کہ وہ ملک کے اس جاگیرداری نظام کے خلاف عوام کی ذہنی تربیت کا بیڑا اٹھائیں گے اور معاشرے کو اس نظام سے نجات دلانے کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے جاگیر داروں، زمینداروں اور سرداروں نے پاکستان کے حصول کی جدوجہد میں اہم رول ادا کیا اور قائد اعظم کی مدد کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس بنیاد پر پاکستان پر حکمرانی کا حق جتائیں اور اپنی جابرانہ اور استبدادی روایت پر اٹل رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جاگیر داروں اور زمینداروں کے اسی انداز فکر کی وجہ سے صحت مند جمہوری سیاست پروان نہیں چڑھ سکی ہے۔