علم زندگی ہے۔ جہالت موت

412

سید وجیہہ بتول
علم حاصل کرنا ہرانسان پرفرض ہے مذہب اسلام بھی تعلیم حاصل کرنے کا درس دیتا ہے پہلی وحی اس بات کا ثبوت دیتی ہے جس کا پہلا لفظ اقراء یعنی (پڑھ) علم وہ شمع ہے جوشعور کا راستہ دکھاتی ہے۔ صاحب علم کے طرز بیان، انداز،افکار اور کردار کی بات ہی الگ ہوتی ہے ۔ ماضی میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں شہنشاہوں کوعلم والوں کے در پر جھکتے ہوئے پایا جاتا ہے ۔ جو قوم علم کی قدر کرتی ہے ترقی و کامرانی اس کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے ۔ یہ انسان ایسے ہی نہیں اشرف المخلوقات کہلایا۔ علم نے ہی اسے تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ۔ آج علم کی بدولت قدرت کے پوشیدہ راز سامنے آرہے ہیں ۔ تعلیم نے انسانوں کو ارتقاء کے کئی مراحل سے گزرنے میں مددکی ہے جس کی بدولت انسان سائنس اور فنون کے موجودہ دور تک پہنچ سکا ہے۔ دور جدید میں ہمیں بے شمار ڈگری یافتہ لوگ مل جاتے ہیں افسوس تعلیم یافتہ لوگ نہیں ملتے۔ ابے،تبے،توں، ڈھکن، گرو، چارسوبیس، چماٹ، پوا، چھمیہ، لونڈا اور اس طرح کے کئی غیرمعیاری الفاظ ہم اپنی تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان نسل سے سنتے ہیں ۔ کیا ہماری تہذیب اخلاقیات یہی سب کچھ سکھاتی ہے؟؟؟ اس دور کے تعلیمی ادارے نوجوان نسلوں کی بہترین شخصیت سازی کرنے کے بجائے رشتہ کروانے والی آنٹیوں کاکردار ادا کررہے ہیں جیسے والدین اپنے بچوں کوحصول علم کے لیے نہیں بلکہ رشتہ ڈھونڈنے کے لیے بھیجتے ہوں۔
آج نوجوان نسل محرم اور غیرمحرم کے فرق سے ناواقف ہیں کسی بھی لڑکی یا لڑکے کے لیے بوائے فرینڈ یاگرل فرینڈ بنانا بہت ہی آسان کام ہے یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بہت سے تعلیمی اداروں کے نام سے منسوب کرش جیسے پیجز اور گروپس موجود ہیں جو بے حیائی کو فروغ دینے میں پلیٹ فارم کی طرح کردار ادا کررہے ہیں ان پیجز کو ہزاروں کی تعداد میں طالب علم پسند کرتے ہیں اور اس نظام کا حصہ بن جاتے ہیں ان پیجز پر کوئی بھی اپنی محبت کی داستان اپنے محبوب کے نام لکھ کر پوسٹ کرسکتا ہے یعنی کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا ۔ حکومت کی سینکڑوں ایجنسیاں ہیں عدلیہ ہے شرعی عدالتیں ہیں لیکن کوئی ایکشن لینے والا نہیں ہے اور جب بات حد سے آگے نکل جاتی ہے تو تیزاب پھینکنے، غیرت کے نام پر قتل اورخودکشی جیسے واقعات کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں دور حاضر کے طالب علم اپنی آزادی اور بے راہ روی میں فرق محسوس کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔
نظام تعلیم کے بگاڑ میں طالب علموں کی ذاتی کوتاہیوں کو بھی اتنا ہی دخل ہے جتنا کہ دوسرے معاشرتی اور سیاسی عوامل کو ہے ۔ تعلیم میں عدم دلچسپی اور ساتھی طلبہ واساتذہ سے بداخلاقی سے لے کر نقل و منشیات کے استعمال نے طلبہ کے تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کے بجائے قوم کو طلبہ کے معاملے پر زیادہ تفصیل سے غور کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ یہ حقیقت بے شک تلخ ہے مگر اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ آج ہمارے تعلیمی نظام میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور نوجوانوں میں ایسی تعداد بہت کم ہے جسے حقیقی معنوں میں طالبعلم کہا جاسکے۔ طالب علموں کو قوم کا مستقبل ایسے ہی نہیں کہاجاتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصے بعد ملک کے تمام امور انہوں نے ہی چلانے ہوتے ہیں۔ تعلیم کو اس حوالے سے معاشرتی سرمایہ کاری بھی کہاجاتا ہے جس میں طالب علم کو اس لیے تربیت دی جارہی ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہوکر اپنی اصل معاشرتی ذمہ داریاں ادا کرسکیں۔ گویا معاشرے کی تعمیر و ترقی کا انحصار بھی تعلیم و تربیت پر ہے اگر کوئی قوم اپنے طالبعلموں کو بہتر تعلیم و تربیت نہیں دے گی تو اس قوم کا مستقبل بہتر بنانے کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ۔ غربت کے ہاتھوں مجبور یا تنگ نظر عناصر جب نظام تعلیم میں یہ بگاڑ دیکھتے ہیں وہ اپنی اولادوں کو تعلیم کی دولت سے مالا مال نہیں ہونے دیتے۔ کیوں کہ وہ اپنی اولادوں کو پڑھالکھا جاہل نہیں بنتے دیکھنا چاہتے ۔ طلبہ اپنے مذہب اور قومی تشخص کے سفیر ہوتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر غیرممالک کے افراد ان کے مذہب اور قوم کے بارے میں اپنا نقطہ نظر قائم کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمیشہ مثالی کردار کو اہمیت حاصل رہی ہے ۔ حکومت اور تعلیمی اداروں کو تعلیم کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں اور اس کے ساتھ مخلوط نظام تعلیم کی حدود کو وقفہ وقفہ سے اجاگر کرنے کے لیے پالیسیاں ترتیب دینی چاہیں۔
میری ان تمام طلبہ و طالبات سے گزارش ہے کہ اگر خدا نے آپ کو علم حاصل کرنے کا موقع عطا کیا ہے تو اسے فضول کاموں میں ضائع نہ کریں کیوں کہ ہر کسی کو یہ موقع میسر نہیں ہے ۔اچھا مسلمان ، اچھا انسان اور اچھے طالب علم بنئے۔