باب الاسلام مکران یا سندھ، تاریخی تجزیہ

780

رمضان المبارک، رحمتوں کے نزول کا مہینہ ہے اس کا ہر لمحہ پاکیزہ اور ہر گھڑی بابرکت ہے انسانی زندگی رحمت خداوندی کی نشانی ہیں اور آزمائش و امتحان کے مراحل نعمت خداوندی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ماہ رمضان المبارک میں وحی کا نزول، غزوہ بدر کا پہلا واقعہ، فتح مکہ اور خود پاکستان کا قیام 27 رمضان المبارک کو ہوا ہے البتہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں 10 رمضان المبارک کو سندھ میں مسلم جرنیل محمد بن قاسم کی آمد کے حوالے سے باب اسلام کا دن منایا جاتا ہے حالاں کہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ محمد بن قاسم سے بہت پہلے بلوچستان کے علاقے مکران کو عمرؓ خلیفہ دوم (۶۳۴ء تا ۶۴۴ء) کے دور خلافت میں عمرو بن تغلی نے فتح کیا تھا اور قدیم بلوچستان کا بقایا حصہ توران، سطح مرتفع قلات بدستور ہندو سیوا زوراک کے قبضے میں تھا۔
جب سیدنا علیؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اپنی طرف سے ذغہ بن ذغہ کو مکران کا والی بنا کر بیچا۔ انہوں نے مکران پہنچ کر فوراً توران پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں اور توران کے دارالحکومت کیسکان پر حملہ آور ہوا۔ سیوا زوراک مقابلے کی تاب نہ لا کر سندھ کی طرف بھاگ گیا۔ ذغہ بن ذغہ نے توران کے دارالحخومت کیسکان (موجودہ قلات) کو فتح کیا۔
محمد بن قاسم ۷۱۱ء میں سندھ پر حملہ کرنے کی غرض سے مکران پہنچا تو والی مکران محمد بن ہارون نے ان کا استقبال کیا۔ اس دور میں اکراء بلوچ کی قبائلی تنظیم کے ’’اکراء بلوچ پنجگانہ‘‘ کے کونسل کے ارکان اُمرائے بلوچ تھے۔ والی مکران و توران محمد بن ہارون کی فوج کا بیش تر حصہ اکراء بلوچ پر مشتمل تھا۔ چناں چہ کورد گال نامک اس جنگ کی وضاحت کرتے ہوئے یوں تفصیل بیان کرتا ہے کہ تورانی ملیشیا کا سپہ سالار امیر اسد براخوئی تھا اور مکران ملیشیا کا سپہ سالار امیر بشر اورگانی تھا بلوچ کونسل کے تین امراء اور ۱۱۶ میں سے ستر قبائل نے اپنے امراء کے ماتحت والی محمد بن ہارون کی قیادت میں سندھ کی لڑائیوں میں حصہ لیا جس کی تفصیل اور نام کورد گالی نامک کے حوالے سے موجود ہیں۔ سفر کے دوران محمد بن ہارون، والی مکران کا ارمن بیلہ (لسبیلہ) کے مقام پر انتقال ہوا تو ان کی بیلہ میں ہی تدفین کے بعد ان کی فوج محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ کے سارے مہمات میں لڑتی رہی۔ یوں سندھ سے قبل پون صدی یعنی ۷۵ سال پہلے مکران فتح ہوا تھا۔ تاریخی لحاظ سے مکران باب السلام ہے نہ کہ سندھ یہ تاریخی تفصیلات، مستونگ محلہ ذرخیلان سے جناب احمد جان صاحب نے ارسال فرمائی تھیں اس گلے و شکوے کے ساتھ
آشنا را حال ایں است وائے بر بیگانہ
کہ ہمارے ملک کے لکھاریوں کا یہ حال ہے تو دوسروں سے کیا گلہ، جناب حمد جان نے اس مراسلے کے ساتھ تاریخی تصنیف ’’تاریخ بلوچ و بلوچستان‘‘ جلد سوم تالیف از میر نصیر خان احمد زئی کے متعلقہ صفحات اور نادر تصاویر بھی ارسال کی ہیں۔
تاریخ کا درست تجزیہ ضروری ہے مکران تاریخی طور پر گزرگاہ اور گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے اور آج گوادر کے نام سے اس کی شہرت و چرچے ہیں حالاں کہ صوبہ بلوچستان، مکران و توران / قلات کے ساتھ برٹش بلوچستان، سبی اور ریاست قندھار کے پشتون علاقوں پر مشتمل ہیں۔ پشتون علاقے بشمول کوئٹہ آج بھی اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں جب کہ بلوچ و براہوی علاقے تاریخ کے جبر سے گزر کر آج ایک نئے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ بلوچستان کے بے لاگ تجزیے کی ضرورت ہے بدلتے ہوئے حالات اور CPEC و معاشی تبدیلیوں کے باعث ثقافت و کلچر اور تہذیب و اطوار اور زبانیں، سب کچھ کو خطرات درپیش ہیں۔ ہمارے سیاست دان و دانشوروں کو فکری و تہذیبی دائروں کے ساتھ معاشی سرگرمیوں اور ذہنی ارتقاء بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کرنا چاہیے ورنہ تاریخ کے صفحات میں ان کا کمزور کردار ناقابل معافی جرم رہے گا۔ ماضی قریب و بعید کا کمزور کردار آج تاریخی المیوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ باب اسلام مکران، گوادر ہو یا تاریخی طور پر ریاست قلات و خاران یا لسبیلہ ہو، کوئٹہ کا تاریخی کردار ہو یا سبی و لورالائی کی معاشی و ثقافتی نشوونما، آج حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ کل جو علاقے ریاست کے طور پر جانے جاتے تھے آج کمزور انتظامی سیٹ اپ کے ساتھ، غربت، ناخواندگی اور انتشار و افراتفری کے نذر ہیں۔ افغانستان و ایران کے پہلو میں رہتے ہوئے یہ علاقے تقسیم برصغیر سے پہلے اور انگریزوں کے مکاریوں و سازشی چال بازیوں سے قبل پُر امن، خوشحال، وقت اور حالات کے مطابق، تہذیب یافتہ و خواندہ تھے۔ قبائلی نظام، کا ایک بڑا مسئلہ، جمود اور تبدیلی کو قبول نہ کرنا ہے۔ پشتون و بلوچ قبائلیت بھی ارتقاء کی طرف مناسب پیش رفت نہ کرسکیں اور یوں غلامی، افراتفری، ناخواندگی، جمود اور حالات کے جبر کے تحت نارواء ناقابل بیان انتظامی تقسیم میں جکڑ دیے گئے ہیں اور یہی انگریز استعمار کی اصل ہوشیاری و کمال تھا کہ قوموں کو تقسیم در تقسیم کرکے ظالمانہ و غیر فطری حکمرانی کو طول دیا جائے۔ 21ویں صدی، جسے جمہوریت اور آزادیوں کا دور کہا جاتا ہے پاکستانی معاشرے کے لیے خوشحالی اور ترقی کی نوید بننے کے بجائے جبر و فساد کا دورِ تاریک بن کر رہ گیا ہے۔ فرقہ واریت، غربت، انتظامی مشکلات اور بدامنی نے ہماری معاشرتی روایات کو پامال کرکے گھٹن و تشدد کا ماحول پروان چڑھایا ہے بلوچ و براہوی معاشرہ، زیادہ تباہ حالی کی طرف گامزن ہے۔ فرقہ واریت نے براہوی نوجوانوں کو قتل و غارت کا خوگر بنایا۔ ایران و افغانستان کے ساتھ تاریخی و تہذیبی رشتے اب متنازع بنا دیے گئے ہیں۔
پُر امن و خوشحال بلوچستان کی از سر نو تشکیل کے لیے انتظامی تقسیم ضروری ہے نصف پاکستان یعنی 47 فی صد رقبے والی طویل و حسین جغرافیہ رکھنے والا صوبہ اگر تین چار حصوں میں تقسیم ہو اور انسانوں کو راحت، علم، ترقی و ہنر میسر ہوں تو اس میں کیا قباحت ہیں۔ حکومت بلوچستان نے حال ہی سرحدی اضلاع چاغی، نوشکی، خاران اور واشک پر مشتمل ’’رخشان ڈویژن‘‘ قائم کرکے احسن قدم اُٹھایا ہے رخشان ایران میں بھی طویل سرحدی علاقہ ہیں خاران کو مرکز بناتے ہوئے چاغی کے سونے کے پہاڑوں و معدنیات کی آباد کاری کے ساتھ سفارت کاری اور علاقائی ترقی کے لیے بھی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں بلوچی بولنے والے رخشانی بلوچوں اور براہویوں کو زمانہ جدید کے ضروریات و تقاضوں کے پیش نظر بہت سارے اقدامات کرنے ہوں گے سینیٹ کے چیئرمین جناب میر صادق خان سنجرانی کا تعلق بھی اس مردم خیز و معدن خیز قیمتی علاقے سے ہے۔ CPEC کے شور میں دو تاریخی ممالک ترکی و ایران کے ساتھ پُرانے رشتے و آر سی ڈی معاہدے نہیں بھولنا چاہیے۔ چیئرمین سینیٹ صادق خان سنجرانی کو اپنے علاقے کے لیے ماسٹر پلان تربیت دینا چاہیے۔ خضدار، جسے مکران و لسبیلہ کی طرح، صحابہ کرامؓ رضوان اللہ اجمعین کی شرف باریابی حاصل ہے مستقل قریب میں اہم نوعیت کا ترقیاتی شہر ثابت ہوگا۔ اس کی اسلامی شناخت اور تیز رفتار ہنر و صلاحیت کے لیے فکرمند و حوصلہ مند لیڈر شپ کی ضرورت ہے یہی ضرورت بلوچوں کے تاریخی شہر قلات کی ہے۔
قصہ مختصر بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر ہمیں اپنے قابل فخر ماضی، تاریخی و تہذیبی روایات، ثقافت و کلچر کے حسین اقدامات اور علم و دانش کے ذخیروں کی ناقدری کے بجائے انہیں آج کی زبان و انداز و اطوار میں پیش کرنے کی صلاحیت و جدت پیدا کرنی چاہیے۔ اب دنیا کے قوموں کا رُخ غریب / سرمایہ بلوچوں کی گدانوں کی طرف ہیں۔ افغانوں نے سرخ سویرے کا مقابلہ خون و آگ کے دریا سے کیا اور تاریخی طور پر فتح مند و سرخرو رہے مگر قبائل کو غرور، محدود مذہبی تصورات اور ناخواندگی و جہالت نے فتح مندی کو آپس کی رنجش و نہ ختم ہونے والے خانہ جنگی کا ذریعہ بنایا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پشتون قوم بحیثیت مجموعی پچھلے چالیس پچاس سالہ جھگڑوں اور سو سالہ نظریاتی کشمکش سے باہر نکل آئے اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق، امن، علم ہنر و صلاحیت اور تہذیب و ترقی کی طرف سفر کا آغاز کریں یہی امتحان بلوچ معاشرے کا ہے جو بحیثیت مجموعی پچھلے نصف صدی اور خاص کر پچھلے پندرہ سال میں آمریت و جبر کے کالی گھٹاؤں سے ہوئے انتشار و افراتفری کے دھانے پر ہیں۔ کیا بلوچ زعماد، دانشور و علماء کرام اور سیاسی قیادت و آزاد خیال طبقہ، اس جوہری تبدیلی اور مزاج و ترجیحات کی تبدیلی کے لیے تیار ہیں یہی سوال اور اس کے ممکنہ جوابات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہونا ہیں پاکستان میں جھگڑا، بلوچ، پشتون اور پنجابی و سندھی کا نہیں بلکہ علم و فہم اور جبر و جہالت کا ہیں آزاد انسانوں کا حسین دنیا شاید ہماری غلام قیادتوں اور انگریزوں کے تربیت سول و ملٹری بیوروکریسی کے ذہنوں میں نہیں سماء پاتی اور بدامنی، غربت، ہنر مندی و مستعدیت سے دوری کے ساتھ جاگیردارانہ و قبائلی ذہنیت نے ہمیں غلام ابن غلام ابن غلام معاشرہ بنا دیا، تبدیلی اور مثبت احساسات ہی قوموں کی زندگی کا ڈھانچہ تبدیل کرتے ہیں ہمیں وسعت نظر اور پاک دامنی کی طرف پلٹنا ہوگا یہی ہماری نجات اور بقاء کا راستہ ہیں۔