لوٹا سیاست کو عوام ہی ختم کرسکتے ہیں

425

عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے آخری مراحل میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ لوٹا سیاست زوروں پر ہے۔ سیاسی بھگوڑوں کو صرف اس لیے پناہ مل رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور الیکشن جیت سکتے ہیں اور انتخاب کے قابل یعنی الیکٹ ایبل کی اصطلاح کے معزز نام کے پیچھے لوٹوں کو چھپایا جارہاہے اسی طرح الیکٹ ایبل کہہ کر لوٹا کریسی کو فروغ دیا جارہاہے۔ آج کل ویسے تو کچھ بھی خفیہ نہیں رہا چند لمحوں میں آدمی کا کچا چٹھا سامنے آجاتا ہے اور جو لوگ مرکز اور صوبوں میں اسمبلیوں اور وزارتوں میں خوب گل کھلاچکے ہیں اب انہیں صرف پارٹی بدلنے کی بنیاد پر ووٹ ملنا ایک غلط روایت کا تسلسل ہوگا۔ اب عوام کو ان لوٹوں کے حوالے سے بھی فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ برسوں سے جس آدمی کو اس کے حلقے کے عوام ووٹ دیتے آرہے ہیں اب اگر وہ محض اس لیے اپنی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں چلا گیا ہے کہ اسے محسوس ہورہاہے یہ پارٹی اقتدار میں آنے والی ہے تو پھر اب عوام کو بھی فیصلہ کرنا ہوگا۔ پہلے اقتدار میں رہتے ہوئے ان کے لیے کون سے کارنامے انجام دیے اب پھر محض اقتدار کی خاطر پارٹی تبدیل کی ہے۔ یہ کام کرنا تو الیکشن کمیشن اور حکومتوں کو چاہیے تھا لیکن اب عوام ہی کو کرنا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو مسترد کرنا ہوگا یہ بات نہیں کہ ان کو متبادل میسر نہیں پورے ملک میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔ اس حوالے سے بڑے دلچسپ اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں۔ ابھی یہ حتمی نہیں ہیں لیکن تحریک انصاف اس حوالے سے اول درجے پر فائز ہے کہ اس نے اپنی پارٹی کے لوگوں کو نظر انداز کرکے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگوں کو ترجیح دی ہے اور صرف 20 فی صد ٹکٹ اپنی پارٹی کے لوگوں کو دیے ہیں جس پراس پارٹی کے اندر ہونے والا اختلاف احتجاج اور مظاہروں کی شکل اختیار کر گیا ہے لیکن بہر حال فیصلہ ہوچکا ہے احتجاج اپنی جگہ ہے اِکا دُکا نے واپسی کی اڑان بھرنے کی دھمکی بھی دی ہے لیکن واپسی کہاں۔ جہاں سے آئے تھے وہاں تو پہلے ہی کوئی اور کسی اور پارٹی سے آکر ٹکٹ لے اڑا ہے۔ ہر پارٹی میں ٹکٹوں کے حوالے سے انتشار ہے لیکن تحریک انصاف میں باہر سے آنے والوں کی پزیرائی حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے احتجاج کی شکل پیدا ہوگئی کیونکہ پی ٹی آئی کے قائد خود ان تمام لوگوں کو چور لٹیرا کہہ چکے ہیں جن کو انہوں نے ٹکٹ دیے ہیں۔ اگر وہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کو چور لٹیرا کہتے تھے تو اس کا مطلب پوری پارٹی ہے اور اس پارٹی کے ٹکٹوں سے محروم لوگوں کو اپنی پارٹی کا پلیٹ فارم دینا اپنے مخلص کارکنوں کے ساتھ نا انصافی ہے۔ 173 ٹکٹوں میں سے صرف 25 ٹکٹ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو اور باقی 148 باہر سے آکر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والوں کو۔ اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو یہ تحریک انصاف کی سیاست کا سب سے بڑا یوٹرن ہوگا۔ ایک اور اہم مسئلہ ہے جس کی جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نگراں حکومت کو توجہ دینی چاہیے وہ یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنما چار چار اور پانچ پانچ حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں ایک سے زیادہ حلقوں کی روایت تو پرانی تھی اور بسا اوقات ان میں سے ایک نشست پر شکست بھی ہوجاتی تھی لیکن اب اگر پانچ نشستوں سے ایک ہی آدمی انتخاب لڑے گا تو کیا نتائج آئیں گے۔ بالفرض وہ پانچوں نشستوں سے جیت گیا تو اس نے چار لوگوں کا حق مارا اور اب چار حلقوں میں ضمنی انتخاب کرایا جائے گا جس پر الیکشن کمیشن کو کروڑوں روپے خرچ کرنے ہوتے ہیں اگر ایک حلقے پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا سبب ایک شخص کا پانچ حلقوں سے کامیاب ہونا ہے تو اس شخص یا پارٹی سے ضمنی انتخاب کا خرچ وصول کیا جائے۔ یہ بات بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جب ایک حلقے سے کوئی مرکزی رہنما الیکشن لڑتا ہے تو لوگ اسے ووٹ اس لیے بھی دیتے ہیں کہ یہ ہماری عزت افزائی ہے مثال کے طور پر شہباز شریف ، نواز شریف یا عمران خان جیسے لیڈر جس حلقے سے بھی انتخاب لڑیں گے اس حلقے کے لوگ فخر کریں گے لیکن جیتنے کے بعد فخر کرنے والے ایک سے زاید تمام حلقوں کے لوگوں کو مایوس کیا جائے گا پھر کسی مخلص کارکن یا الیکٹ ایبل کو ٹکٹ دیا جائے گا ایسا کیوں کیا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو نوٹس لینا چاہیے۔ وہ اب تک ضابطہ اخلاق جاری نہیں کرپایا ہے جس میں یہ شق بھی شامل ہوسکتی تھی کہ کوئی فرد دو سے زیادہ نشستوں پر انتخاب میں حصہ نہیں لے سکے گا یا اس نے حصہ لیا تو جتنی نشستوں پر جس رکن کی وجہ سے ضمنی انتخاب ہوگا اس کا سارا خرچ اسے برداشت کرنا ہوگا۔ لیکن کیا الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت یہ کام کرسکیں گے؟؟ یہ بڑا اہم سوال ہے ہمارے خیال میں لوٹا سیاست کو بھی الیکشن کمیشن نہیں روک سکتا اور نہ ہی ایک سے زائد نشستوں کے معاملے کو۔ انتخاب کے نتیجے میں وجود میں آنے والے اسمبلیاں بھی اس نظام کو نہیں بدلنا چاہیں گی کیونکہ یہی لوٹے کل کسی اور پارٹی میں گھس کر اپنی جگہ بنائیں گے یہ کام صرف عوام کرسکتے ہیں ایسے لوٹوں کو چن چن کر شکست دیں جو محض ٹکٹ کی وجہ سے اپنی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں آئے ہیں یا یہ سن کر آئے ہیں کہ آنے والا حکمران فلاں شخص ہوگا یہ روایت ختم ہونی چاہیے کہ سیاسی بھگوڑے نئے سیاسی جھنڈے تلے پناہ لے لیں۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے سیاست دان اور سیاست بھی بدنام ہوتی ہے اسی طرح کرپٹ افراد خواہ کسی پارٹی کی نمائندگی کررہے ہوں ان کو مسترد کرنا بھی عوام ہی کی ذمے داری ہے۔ یہ حکمران تو منشور کا اعلان صرف انتخابات تک کے لیے کرتے ہیں پھر اسے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ ورنہ اب تک ملک میں متناسب نمائندگی کا نظام نافذ ہوتا اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہبر میاں نواز شریف نے ایک شرط رکھی ہے جو اگرچہ ان کی ضد کی وجہ سے ہے لیکن اس سے امکان اس امر کا ہے کہ پارٹی کی قدر بڑھے گی۔ انہوں نے ٹکٹ دینے کے لیے یہ شرط رکھی ہے کہ امیدوار کو پارٹی سے وفاداری کا حلف نامہ بھرنا ہوگا۔ اگرچہ یہ روایتاً درست نہیں لیکن لوٹا سیاست کی وجہ سے یہ ضروری محسوس ہوتا ہے۔ بس میاں صاحب اور ان کی پارٹی یاد رکھے کہ وہ بھی لوٹوں کی پزیرائی سے باز رہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی بھی اگر لوٹوں کی پزیرائی سے ہاتھ اٹھالیں تو تحریک انصاف اکیلی رہ جائے گی حیرت تو اس بات پر ہے کہ یہ کیسی پارٹی ہے جس میں 75 فی صد ٹکٹ باہر سے آنے والوں کو دے دیے گئے پھر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ 75 فی صد لوگ مسلم لیگ و پیپلزپارٹی میں رہتے ہوئے خرابیوں کے ذمے دار تھے اب پی ٹی آئی میں آکر کیا گنگا اشنان کرلیا ہے۔