آسانیاں پیدا کرنے والے

337

ناصر حسنی

بہاولپور کے نابینا شاعر ظہور آثم نے اکادمی ادبیات اسلام آباد کو مالی امداد کے لیے درخواست دی تو جواب آیا کہ اپنی کوئی مطبوعہ کتاب ارسال کرو۔ ہم نے اکادمی ادبیات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جناب میر نواز سولنگی کو فون کیا اور کہا جناب! ایک کتاب کی اچھی خوش نما طباعت اور اشاعت پر ایک لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شاعر یا ادیب لکھ پتی ہو اسے مالی امداد کی کیا ضرورت ہے؟ اور ایسے لوگوں کو بھی کمی نہیں جو درجنوں کتب کے خالق ہیں۔ میر نواز سولنگی صاحب نے کہا۔ مالی امداد دینے کا ایک طریقہ کار ہے اور ہم اس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ کمیٹی مالی امداد دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے، ہم نے کہا۔ میر صاحب کمیٹی میں جو لوگ شامل ہیں آپ بھی انہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک صاحب کو پندرہ لاکھ روپے ہر ماہ دیے جاتے ہیں اور ان کی علمیت کا یہ عالم ہے کہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ لعل شہباز قلندر کا لعل عین سے لکھا جاتا ہے یا الف سے، ان کا مضمون نصاب کی ایک کتاب میں شامل ہے جس میں نئی نسل کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ چرس نوشی آدمی کے دل کو گداز کرتی ہے، چرس نوش کبھی دہشت گرد نہیں ہوتا اور اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک حاضر جسٹس صاحب نے ایک بیان میں کہا کہ چرس بھنگڑا ڈالنے والے ملنگ پیتے ہیں سو، یہ ایک ملنگی نشہ ہے گویا چرس نوشی کو منشیات سے نکال دیا گیا۔ میر صاحب! ہماری گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور کہا میں آپ کی باتوں اور آپ کی رائے سے متفق ہوں۔ مالی امداد کی درخواست دینے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو عزت نفس سے محروم ہیں، لاکھوں روپے تنخواہ لیتے رہے ہیں اور اب ہزاروں روپے پنشن کے نام پر لے رہے ہیں پھر بھی اپنی غربت اور ناداری کا رونا رو رہے ہیں۔
ہم نے بتایا کہ ظہور آثم نے اپنی عمر بھر کی پونجی ادب کی خدمت میں لٹادی وہ بہاولپور سے دو ادبی جریدے ’’حروف‘‘ اور ’’سطور‘‘ شائع کرتا رہا ہے، ایک ہفت روزہ اخبار ’’طرب‘‘ بھی شائع کرتا رہا ہے۔ وہ ادب پروری میں یہ بھی بھول گیا تھا کہ ادب کی تخلیق جمع پونجی گنوانے کا نام ہے۔ دولت کمانے کا نہیں۔ اور اب وہ بینائی سے محروم ہو کر دوسروں کا محتاج بن گیا ہے۔ عزیز واقارب کی مالی اور اخلاقی امداد پر اس کے گھر کی گاڑی چل رہی ہے مگر اس کی خواہش ہے کہ ادبی خدمات کے صلے میں اس کے گھر کا چولہا گرم رکھا جائے۔ کیوں کہ یہ اس کا حق ہے۔ حکومت کی جانب سے ملنے والی مالی امداد غریب اور بے آسرا ادیبوں اور شاعروں کے لیے مختص ہونا چاہیے۔ مطبوعہ کتب کے بجائے مطبوعہ کلام کو پیش نظر رکھا جائے۔ میر صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی چمڑی بچا کر جو کچھ بھی کرسکے ضرور کریں گے۔ ہم نے کہا اگر آپ غریب نواز بن کر سوچیں گے تو بہت کچھ کرسکتے ہیں اور پھر۔ معجزہ ہوگیا، ظہور آثم کا وظیفہ منظور ہوگیا۔ ہمارا خیال تھا کہ ظہور آثم کو قطعہ نگار کی حیثیت سے وظیفہ دیا جارہا ہے مگر بعد میں علم ہوا کہ صاحب کتاب ہونے کی شرط ختم کردی گئی ہے۔
منکر ہو جو صاحب منصب
بخشتا ہے وقار منصب کو
جو صاحب منصب، وقار منصب کا باعث ہوتے ہیں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔