عام انتخابات میں کراچی کا ممکنہ منظرنامہ

618

محمد انور

ملک میں عام انتخابات مقررہ تاریخ 25 جولائی کو ہوجائیں گے یا نہیں یہ سوال ان دنوں سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی کی صفوں میں شد و مد سے کیا جارہا ہے۔امکان ہے کہ یہ سوال انتخابات کے انعقاد تک کیا جاتا رہے۔ بہرحال پاکستان کے الیکشن کمیشن نے نئے کاغذاتِ نامزدگی کی منسوخی کا حکم معطل کیے جانے کے بعد 2018 کے عام انتخابات کے لیے امیدواروں سے کاغذات وصول کرنے کا کام مکمل کرلیا ہے۔ اس طرح انتخابات کے حوالے سے پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔
کاغذات نامزدگی کے فارم جمع کرانے کے معاملے پر جماعت اسلامی کے سوا تقریبا تمام بڑی جماعتوں میں اختلافات بھی نظر آئے جبکہ تحریک انصاف کے مایوس کارکنوں نے ٹکٹ نہ ملنے پر اپنے چیئرمین عمران خان کی رہائش گاہ کا احتجاجاً گھیراؤ بھی کیا۔ تحریک انصاف اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے سلسلے میں کچھ زیادہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتی ہوئی نظر آئی جس کے نتیجے میں ’’کھلاڑیوں‘‘ نے مسلم لیگ نواز کی ایک خاتون کا نام بھی اپنے امیدواروں میں شامل کردیا۔ جس پر مذکورہ خاتون نے سخت ردعمل کا بھی اظہار کیا تھا۔
25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کی ایک خاص بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ مسلم لیگ نواز سمیت بڑی پارٹیوں کے مرکزی رہنماؤں نے کراچی سے انتخابات لڑنے کا اعلان کردیا۔ پنجاب کے میدانوں سے شہباز شریف، میانوالی کے اور خیبر کے پہاڑوں سے عمران نیازی اور سندھ کے صحراؤں سے بلاول زرداری نے کراچی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال ہے کہ ان ’’غیر کراچی والے ‘‘ ایم کیو ایم کا سحر ہی نہیں بلکہ اس کے ٹوٹ کر بکھرنے سے اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے ہیں کہ انہیں کراچی کی پڑھی لکھی قوم متبادل قیادت کے طور پر تسلیم کرکے انہیں ووٹ دے گی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ 1979 اور پھر 1983 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور عبدالستار افعانی دو مرتبہ میئر کراچی منتخب ہوئے تھے۔ یہ وہی عبدالستار افغانی ( مرحوم ) تھے جنہوں نے کراچی سے موٹر وہیکل ٹیکس چھین کے خزانے میں اسے سندھ حکومت میں شامل کرنے پر منتخب کونسلرز کے ساتھ احتجاج کیا تھا اور سندھ اسمبلی کا گھیراؤ کیا تھا اس جدوجہد پر اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ غوث علی شاہ نے بلدیہ کی منتخب کونسل کو معزول کردیا تھا۔ افغان صاحب کراچی کو میٹرو پولیٹن اختیارات کا مطالبہ کررہے تھے جو سٹی گورنمنٹ یا میگا سٹی کے نام سے سامنے آرہے ہیں۔
عبدالستار افغانی 8 سال تک بابائے شہر رہنے کے باوجود لیاری میں واقع دو بیڈ کے فلیٹ ہی میں رہے ان کی وفات کے بعد اسی فلیٹ سے ان کا جنازہ اٹھایا گیا۔ مطلب انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اپنی رہائش بھی تبدیل نہیں کی اور نہ ہی ذاتی گاڑیاں خرید سکے۔ افعانی صاحب کی میئر شپ کا یہ تاریخی دور تھا جس میں سفاری پارک اور کلفٹن میں ماہی خانہ و باغ ابن قاسم تعمیر ہوا۔
اس لیے آئندہ انتخابات میں اب دوبارہ جماعت اسلامی کے امیدواروں کی بڑی تعداد کے کامیابی کی توقع ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم خوف پھیلاکر ووٹ حاصل کرتی رہی لیکن اب وہ ’’ آلہ خوف‘‘ سے محروم ہونے کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ انتخابات انتہائی شفاف اور منصفانہ ہونگے اس لیے مسلم لیگ نواز کے کسی امیدوار کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے تاہم پیپلز پارٹی کو کراچی سے ایک قومی اسمبلی کی نشست مل سکتی ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کو بھی زیادہ سے زیادہ صوبائی اسمبلی کی اور چار قومی اسمبلی کی نشستیں مل سکیں گی۔ لوگوں کی اصل دلچسپی متعلقہ علاقوں میں مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی کے امیدواروں کے نتائج
پر رہے گی۔ خیال ہے کہ پاک سر زمین پارٹی کراچی سے صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں اور قومی کی ایک نشست بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو وہ اسے اپنی کامیابی قرار دے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کراچی سے 3 سیٹیں باآسانی نکالنے کا امکان ہے تاہم اسے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی کے لیے ایم ایم اے ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، مہاجر قومی موومنٹ پاک سر زمین پارٹی اور پیپلز پارٹی سے سخت مقابلہ کرنا پڑے گا۔ سندھ سے پیپلز پارٹی کو ماضی کے مقابلے میں کم سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ جس کی وجہ پیپلز پارٹی کے اندر پائے جانے والے اختلافات ہیں۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ہی ٹی آئی کے زیادہ امیدواروں کی کامیابی کا امکان ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں کراچی کو اس کی 80 کی دہائی والی لیڈرشپ مل جائے گی۔ انتخابات 2018 کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ انتخابات سخت ماحول میں مگر منصفانہ ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں بڑی پارٹیوں کے دعووں کی قلعی کھل جائے گی۔