امریکا، شمالی کوریا کے صدر کی تاریخی ملاقات

405

بین الاقوامی پس منظر میں گزشتہ منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریاکے صدر کم جون اُن میں تاریخی ملاقات ہوئی ہے۔ یہ ملاقات اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کی وجہ سے جزیرہ نما کوریامیں طویل عرصے سے جاری سرد جنگ کے خاتمے کا امکان ہے۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے 1871ء میں کوریا پر حملہ کیا تھا اس کے بعد 1882ء میں کوریا اور امریکا میں ایک معاہدہ ہوا جو 1910ء تک برقرار رہا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے جاپان نے کوریا پر قبضہ کرلیا۔ سوویت یونین اور امریکا نے مل کر کوریا کو دو حصوں جنوبی اور شمالی کوریا میں تقسیم کردیا اور پھر یہ دونوں حصے اپنے سر پرستوں کی معاونت سے آپس ہی میں لڑتے رہے۔ یہ تقسیم بالکل اسی طرح تھی جیسے مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی۔ اب بھی روس اور اس کے اتحادی شمالی کوریا اور امریکا جنوبی کوریا کی پشت پناہی کرکے ایک قوم کو آپس میں لڑاتے رہے شام میں بھی بڑی طاقتیں اپنی جنگ اس میدان میں لڑ رہی ہیں۔ بہر حال، اب امریکی صدر ٹرمپ اور کم جون ان کی ملاقات کے بعد کوریا میں حالات بدلنے کا امکان ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریا کو دوسروں کا کھلونا بننے کے بجائے ایک قوم ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ چند دن پہلے تک صدر ٹرمپ شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی دھمکی دیتے رہے ہیں اور جواب میں صدر کم جون ان کوانتباہ کرتے رہے ہیں کہ امریکا ان کے میزائلوں کی زد میں ہے اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ وہی صدر ٹرمپ اب شمالی کوریا سے مصالحت کی باتیں کررہے ہیں۔ امریکا شمالی کوریا کی ایٹمی صلاحیت سے خوف زدہ رہا ہے اب ٹرمپ نے کہاہے کہ انہوں نے دنیا کو شمالی کوریا سے لاحق جوہری خطرے سے محفوظ کردیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے جزیرہ نما کوریا کو نیو کلیئر ہتھیاروں سے محفوظ کرنے کا عہد کیا ہے۔ امریکا نے جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں روکنے کا اعلان بھی کردیا ہے اور سرد جنگ میں اپنے دشمن شمالی کوریا کی سلامتی کی ضمانت بھی دی ہے گو کہ شمالی کوریا کی ایٹمی طاقت اور اس کا جوہری اسلحہ ہی شمالی کوریا کی سلامتی کی سب سے بڑی ضمانت تھا شمالی کوریا نے ایٹمی اور میزائل تجربات روکنے کا وعدہ کرلیا ہے لیکن مبصرین نے اس پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جس کوکل تک دھمکیاں دے رہے تھے اب کہتے ہیں کہ کم جون بہت ذہین ہیں، انہیں وائٹ ہاؤس بلاؤں گا۔ صدر ٹرمپ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں جو سینہ تان کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ عجیب امریکی صدر ہے جو ہر ایک کو ٹکریں مارنے پر تلا رہتا ہے اور کوئی آنکھیں دکھائے تو دبک جاتا ہے۔ بہت کم وسائل رکھنے والے افغان طالبان 17 سال سے اس کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں جن کے پاس جذبہ حریت کے سوا کچھ نہیں۔ ایک دن امریکا کو ان کے سامنے بھی جھکنا پڑے گا۔