انتخابات ۔کیا نتیجہ لائیں گے؟

457

انتخابی سرگرمیاں تیز ہوتی جارہی ہیں۔ تجزیہ نگار اندازے لگارہے ہیں کہ کون سا گھوڑا جیتے گا۔ تبدیلی کے خواہش مند تحریک انصاف پر داؤ لگارہے ہیں اور اسے ن لیگ کا متبادل سمجھ رہے ہیں ۔ لیکن خود عمران خان بار بار ایسی حرکتیں کررہے ہیں جن سے تحریک انصاف کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سیتا وائٹ کا بھوت ایک بار پھر ان کا پیچھا کررہا ہے اور مخالفین نے عمران خان کو نااہل قرار دلوانے کیلیے معاملہ عدالت میں پہنچادیا ہے۔حال ہی میں عمران خان اپنے ایک بہت قریبی ساتھی زُلفی بخاری کو اپنے ساتھ عمرے پر لے گئے ہیں۔ وہ چارٹرڈ طیارے میں گئے ہیں جس پر مخالفین نے احتجاج کیا ہے کہ کیا یہی نیا پاکستان ہے کہ تحریک پاکستان کے سربراہ عام فلائیٹ کے بجائے چارٹرڈ طیارے میں جائیں اور دوسرے پاکستانی عام طیاروں میں سفر کریں۔ اس سے بڑھ کر زُلفی بخاری کے ساتھ جانے پر سوالیہ نشانات لگ گئے ہیں۔ خبروں کے مطابق زُلفی بخاری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں تھا اور جب وہ عمران خان کے ساتھ طیارے میں بیٹھ گئے تو عمران خان نے تین گھنٹے تک جہاز کر رکواکر زُلفی کا نام ای سی ایل سے نکلوایا۔ اب یہ خبریں بھی سامنے آگئی ہیں کہ جس نگران وزیر داخلہ نے زُلفی کا نام ای سی ایل سے نکلوایا وہ عمران خان کا ملازم اور ان کے ایک منصوبے کا ڈائریکٹر ہے۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ زُلفی کا نام ای سی ایل میں تو نہیں تھا لیکن وہ بلیک لسٹ میں ضرور ہے۔ بہر حال یہ معاملہ بھی عمران خان کے خلاف گیا ہے جس سے تحریک انصاف کے کارکنوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ عمران خان کا یوٹرن اب ان کی شناخت بن چکا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف سنگین الزامات کی زد میں ہیں اور روزانہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ مجھے جیل بھیج دو۔ گزشتہ منگل کو بھی انہوں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس میرا کیس سن کر پھانسی دیدیں یا جیل بھیج دیں۔ انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ آئین توڑنے والے (پرویز مشرف)کو دیلکم اور میرا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ لیکن ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا نہیں گیا ہے اور وہ اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے لندن جارہے ہیں۔ تحریک انصاف نے نگران حکومت کو بھی اپوزیشن کا درجہ دے کر الزام لگایا ہے کہ اس پر ن لیگ کا دباؤ ہے۔ پیپلزپارٹی کے صدر نشین نو عمر بلاول زرداری نے نعرہ لگایا ہے کہ’’کراچی نامعلوم افراد کے چنگل سے آزاد ہوچکا ہے‘‘۔ یعنی اب کراچی معلوم افراد کے چنگل میں ہوگا۔ اسی کے ساتھ نگران حکومت میں دہری شہریت کے حامل افراد کی شمولیت پر بھی اعتراضات سامنے آگئے ہیں۔ برطانوی شہری جنید شاہ کو سند ھ میں نگران وزیر تعینات کردیا گیا ۔ دہری شہریت اور دوسرے ممالک کے اقامے رکھنے والے کئی سیاستدان سامنے آرہے ہیں جو عام انتخابات میں حصہ بھی لیں گے۔ متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ سیاستدان تو محض بدنام ہیں ورنہ نیب نے سب سے زیادہ وصولیاں تو جرنیلوں سے کی ہیں اور دوسرا نمبر بیورو کریسی کا ہے۔ سیاستدان تو تیسرے نمبر پر ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ان کی بات بالکل صحیح ہے لیکن جو سیاستدان اقتدار میں آجائیں یا اقتدار کے حصول کے دوڑ میں شریک ہوں ان کی کرپشن اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ ان کا کام تو کرپشن کو روکنا ہے نہ کہ اس کا حصہ بن جانا خواہ تیسرے نمبر پر ہوں۔ جرنیل ڈنڈے کے زور پر کرپشن کرتے رہے ہیں اور اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں لیکن ان سے اگر سب سے زیادہ وصولیاں کی گئی ہیں تو یہ نیب کا کارنامہ ہے ۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا کہنا ہے کہ قومی دولت لوٹنے والوں کو ایوانوں میں نہیں، جیل میں ہونا چاہیے۔ یہی ہونا چاہیے مگر آج تک ایسا ہو نہیں سکا چنانچہ لٹیروں کے حوصلے بڑھتے گئے۔ اب دیکھنا ہے کہ نئے عام انتخابات کیا نتائج لے کر آئیں گے اور کون لوٹ مار کا اختیار حاصل کرے گا ۔ اندازہ ہے کہ اس بار کسی بھی جماعت کو اکثریت نہیں ملے گی اور مخلوط حکومت بنے گی۔ میاں نوازشریف تو اب تک تاعمر نااہل ہیں لیکن ممکن ہے کہ ن لیگ میاں شہبازشریف کو آگے لائے۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی اب تک قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور اہل پنجاب کی اکثریت اب بھی ن لیگ کے حق میں ہے۔ادھر کراچی سمیت پورے سندھ کے حالات دگر گوں ہیں۔ کراچی پر ایک عرصے تک ایم کیو ایم کا قبضہ رہا ہے جس کو پیپلزپارٹی کی آشیرواد حاصل رہی۔ اب وہی پیپلزپارٹی ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوے کراچی میں کلین سوئپ کا دعویٰ کررہی ہے۔ ایم کیو ایم اس وقت بری طرح پھوٹ اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ اس کی پتنگ کاٹی جا چکی ہے اور عام انتخابات میں اب وہ ماضی کی طرح دھاندلی کا مظاہرہ نہیں کرسکے گی۔ شاید یہ کام کوئی دوسرا کرے۔