خوف زدہ کمانڈو

298

سابق صدر جنرل پرویز مشرف جب تک وردی میں رہے بڑی بہادری کا مظاہرہ کرتے اور نعرہ لگاتے رہے ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘ لیکن ہر آمر اندر سے بزدل ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی طاقت کے بل پر بہادری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وردی اتری اور ساری اکڑ فوں بھی اتر گئی۔ پرویز مشرف بار بار ملک واپس آنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن خوف کا یہ عالم ہے کہ واپسی کی ہمت نہیں ہورہی۔ ان کے واپس نہ آنے پر اب اس کا امکان نہیں رہا کہ وہ عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گو کہ انھوں نے کئی جگہ سے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ اگر وہ نہ آئے تو کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال نہیں ہوسکے گی۔ ان کا عذر یہ تھا کہ ان کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ معطل کردیے گئے ہیں عدالت عظمیٰ نے ان کی راہ کی ہر رکاوٹ دور کردی اور یہ حکم بھی دیا کہ انہیں گرفتار نہ کیا جائے اور عدالت آنے دیا جائے۔ اس کے باوجود پرویزمشرف واپس نہیں آئے تو چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ وہ ملک پر قبضہ کرتے ہوے تو ڈرے نہیں واپس آتے ہوئے کیوں ڈر رہے ہیں، اتنا بڑا کمانڈو کیسے خوف کھا گیا۔ عدالت عظمیٰ انہیں تحفظ کا یقین دلارہی ہے لیکن وہ ڈرے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے چیلنج کیا ہے کہ کمانڈو ہیں تو آکر دکھائیں۔ سیاست دانوں کی طرح ’میں آرہاہوں‘کی گردان نہ کریں۔ لیکن یہ کمانڈو تو سری لنکا سے آتے ہوئے کراچی ائرپورٹ پراس وقت اترا تھا جب پورے ائرپورٹ کو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور کور کمانڈر نے لائن کلیئر ہونے کا سگنل دیا تھا۔ ٹی وی اسٹیشنز پر فوج نے قبضہ کرلیا تھا اور ملک پر فوج کے قبضے کا یقین ہونے کے بعد یہ کمانڈو جنرل پاکستان میں اترا تھا۔ پرویز مشرف نے نہ آنے کے لیے بہانہ کیا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور انہیں رعشہ ہوگیا ہے۔ بے تحاشا پینے والوں کو یہ بیماری ہوجاتی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا ہے کہ اگر رعشہ ہے تو وہ الیکشن میں مکا کیسے لہرائیں گے، بیمار ہیں تو ائرایمبولینس سے آجائیں۔ غالباً پرویز مشرف کو خوف ہے کہ وہ عدالت تو پہنچ جائیں گے، جیسا کہ انہیں یقین دلایاگیا ہے، لیکن کہیں باہر آنے پر گرفتار نہ کرلیے جائیں۔ فوج اپنے کسی سابق سربراہ کو گرفتار تو نہ ہونے دے گی اور ماضی میں کئی ایسے جرنیل صاف بچ نکلے جن پر جرم ثابت ہوچکا تھا۔ مثلاً لاہور گالف کورس اسکینڈل میں ان چار جرنیلوں کو ہاتھ نہیں لگایا گیا جنہوں نے 16 ارب روپے کی ڈیل کی تھی اور عدالت عظمیٰ میں پرائیویٹ پارٹی نے تسلیم کرلیا تھا کہ اسے ناجائز فیور دی گئی۔ ایسے ہی ایک معاملے میں کچھ جرنیل ملوث تھے اور وزیر داخلہ چودھری نثار تحقیقات کروانا چاہتے تھے۔ انہیں پیغام ملا کہ فوج خود تحقیقات کرنا چاہتی ہے۔ ان پر الزامات ثابت ہوئے اور جنرل کیانی نے کارروائی شروع کی۔ چودھری نثار اور شہباز شریف کی کئی ملاقاتیں جنرل کیانی سے ہوئیں اور فیصلہ ہوا کہ قومی مفاد اسی میں ہے کہ سب کچھ بھلادیا جائے۔ چنانچہ پرویز مشرف بے کھٹکے پاکستان آجائیں، کچھ نہیں ہوگا۔ آخر وہ ملک سے باہر بھی تو کسی کی پشت پناہی سے گئے تھے وہ جنرل راحیل تھے، آصف زرداری یا نواز شریف تھے یا عدالت نے اجازت دی تھی، یہ سب مبہم ہے لیکن جس پر سنگین الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا تھا وہ دبئی میں آرام سے بیٹھا ہے اور کہتاہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مگر وہ آئیں تو سہی۔ ان کا پسندیدہ مشروب تو پاکستان میں بھی مل جائے گا۔