بجلی کہاں گئی؟

290

بجلی پانی سے محروم عوام کا احتجاج جتنا بڑھتا جارہاہے اتنا ہی یہ بحران بھی بڑھ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کے الیکٹرک سمیت بجلی فراہم کرنے والی تمام کمپنیاں عوام سے انتقام لینے پر اتر آئی ہیں۔ دعویٰ حکمرانوں کا یہ ہے کہ بجلی تو بہت ہے مگر دے نہیں سکتے۔ کیونکہ کبھی تو بجلی گھروں میں کوئی خامی حائل ہوجاتی ہے، کبھی ترسیل کا نظام بگڑجاتا ہے اور کبھی دریاؤں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے بجلی پوری حاصل نہیں ہوتی۔ ن لیگ کی حکومت بغلیں بجارہی ہے کہ ہمارے جانے سے بجلی کا بحران بڑھ گیا۔ میاں شہباز شریف جاتے جاتے کہہ گئے کہ ہم تو چلے اب ہم سے کوئی لوڈ شیڈنگ کا شکوہ نہ کرے، نگران حکومت ذمے دارہے۔ گویا بجلی ایسی چیز تھی جسے ن لیگ کی حکومت اپنی رخصتی پر جیب میں ڈال کر نکل لی۔ اگر شریف برادران کے دور میں بجلی پیدا ہورہی تھی اور فاضل بھی تھی تو اب وہ کہاں گئی؟ لیکن کیا گزشتہ 5 سالہ دور حکومت میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی تھی؟ بالکل ہورہی تھی حالانکہ شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ اقتدار میں آکر چند ماہ میں بجلی کا بحران ختم نہ کیا تو میرا نام بدل دینا۔ لیکن وہی کیا، ان سے پہلے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم تو باقاعدہ تاریخیں دیتے رہے کہ فلاں تاریخ سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور صدر آصف زرداری نے انتباہ کیا کہ تاریخیں دینا بند کرو۔ پیپلزپارٹی کو یہ تو یاد نہیں رہا البتہ وہ شہباز شریف کا نام بدلنے پر مصر ہے۔ بات یہ ہے کہ گزشتہ 10 سال میں دونوں حکومتوں نے بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا مگر اعلانات اور بیانات پر زور رہا۔ زور تو ہائیڈرل پاور پر بھی رہا لیکن اس کے لیے کوئی نیا ڈیم نہیں بن سکا۔ بجلی کے حصول کے دیگر ذرائع پر پوری توجہ نہیں دی گئی ورنہ دنیا میں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کی جارہی ہے۔ پاکستان میں بہاولپور میں سولر سسٹم لگایا گیا لیکن اس کی دیکھ بھال نہیں کی گئی اور اس سے جو بجلی حاصل بھی ہورہی ہے وہ بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ سولر سسٹم کی سہولت عام کی جانی چاہیے۔ بڑی فیکٹریوں کو اپنی بجلی پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی طلب اور رسد میں محض دو ہزار میگا واٹ کا فرق ہے۔ یہ فرق ایسا نہیں کہ 10،10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جائے۔ شدید گرمی میں ہر شخص بلبلا اٹھا ہے۔ بجلی نہ ہونے سے پانی کی قلت بھی بڑھ گئی ہے۔ کراچی میں کئی محلے ایسے ہیں جنہوں نے ایک ایک ماہ سے پانی نہیں دیکھا۔ دور دور سے پانی لاکر استعمال کیا جارہاہے۔ دوسری طرف طرفہ تماشا یہ ہے کہ کراچی میں بالخصوص آئے دن پانی کی بڑی لائنیں ٹوٹ جاتی ہیں یا پانی رسنے لگتا ہے جس سے سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں، کئی مقامات ایسے نظر آجائیں گے جہاں پانی کی لائنوں سے رسنے والے پانی کی جھیل میں رکشے اور گاڑیاں دھل رہی ہیں یا بچے وہاں نہارہے ہیں۔ پانی جیسی قیمتی چیز یوں ضائع ہورہی ہے مگر کسی کو احساس ہی نہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ گزشتہ دنوں جاپان کے سفیر نے توجہ دلائی ہے کہ پاکستان میں پانی ضائع کیا جارہاہے۔ ان کا کہناتھا کہ وہ دو بالٹی پانی سے اپنی گاڑی دھولیتے ہیں لیکن پاکستانی بڑی بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ تو عام مشاہدہ ہے کہ گاڑیوں والے پائپ لگاکر گاڑیاں دھوتے نظر آتے ہیں یا باغبانی کا شوق پورا کرنے کے لیے پانی ضائع کرتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں اعتدال اور احتیاط کا پہلو نظر نہیں آتا۔ قرآن کریم کا حکم ہے کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ گھروں اور مسجدوں میں بھی پانی ضائع ہورہاہے ایسا ہی کچھ بجلی کے معاملے میں ہے۔ بڑے بڑے گھروں میں خاص طور پر ہر وقت چراغاں کا سماں رہتا ہے۔ اے سی کا بے تحاشا استعمال عام ہے۔ دفاتر میں کیا کئی گھروں میں بھی کئی کئی ائر کنڈیشنر چل رہے ہیں۔ کسی کو بجلی کے زیاں کا احساس نہیں۔ ایوان صدر میں ایک ایسے صدر بھی رہ چکے ہیں جو خود فالتو بلب بجھاتے پھرتے تھے حالانکہ صدر وزیراعظم کیا کئی سرکاری افسران کو بھی بجلی کا بل نہیں دینا ہوتا، یہ تو عوام سے وصول کیا جاتا ہے خواہ انہیں بجلی ملے یا نہ ملے۔ اس وقت ملک میں نگراں حکومتیں ہیں۔ بجلی پانی کے بحران پر قابو پانا نہ تو ان کے بس میں ہے اور نہ ہی وہ یہ ذمے داری قبول کریں گی۔ وہ تو کہہ رہی ہیں کہ ہمارا کام تو انتخابات کرانا ہے البتہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمیں بڑھانا شاید ان کی ذمے داری میں شامل تھا۔ اب دیکھیں نئی منتخب حکومت کیا کرتی ہے۔