معاشروں کا فرق

390

پاکستانی معاشرے کے حوالے سے کوئی اچھی خبر مشکل ہی سے آتی ہے۔ آتی ہے تو معاشرہ اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خود تنقیدی رویے سے کہیں زیادہ خود مذمتی کا رجحان موجود ہے۔ خود تنقیدی طرزِ عمل ایک صحت مند رویہ ہے۔ خود پر تنقیدی نظر ڈالنے والا بتاتا ہے کہ وہ ذہنی اور نفسیاتی اعتبار سے صحت مند ہے اور وہ اپنے نیک و بد کو معروضی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے۔ اس کے برعکس خود مذمتی کا رویہ ایک مریضانہ نفسیات کا حاصل ہے۔ خود مذمتی میں مبتلا شخص یا معاشرہ نہ اپنی خامی کو معروضی طور پر دیکھ سکتا ہے نہ اپنی خوبی کو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کے حوالے سے آنے والی اچھی خبریں معاشرے کی توجہ حاصل نہیں کرپاتیں۔
ایسی ہی ایک خبر حال ہی میں مغرب سے نمودار ہوئی ہے۔ خبر کے مطابق Stanford Social Innovation Review کے مارچ 2018ء کے شمارے میں موجود ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستانی معاشرہ خیرات کے جذبے کے حوالے سے دنیا کے بہترین معاشروں میں شامل ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ اپنی مجموعی قومی پیداوار یا GDP کا 1.3 فی صد خیرات پر خرچ کرتا ہے۔ کینیڈا کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کینیڈا خیرات پر اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 1.2 فی صد صرف کرتا ہے۔ تحقیقی رپورٹ کا انکشافی پہلو یہ ہے کہ پاکستان خیرات کے اعتبار سے برطانیہ اور کینیڈا کی صف میں شامل ہے اس لیے کہ پاکستان کے لوگ خیراتی سرگرمیوں پر مجموعی قومی پیداوار کا ایک فی صد سے کچھ زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ رپورٹ کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ پاکستان خیرات پر جتنا صرف کرتا ہے بھارتی معاشرہ خیرات پر صرف اس کا نصف خرچ کرتا ہے۔ یعنی پاکستان اگر سال میں سو روپے خیرات کی مد میں خرچ کرتا ہے تو بھارت صرف 50 روپے صرف کرتا ہے۔ تحقیقی رپورٹ صرف اتنی سی بات بتا کر خاموش ہوگئی ہے مگر یہ قصہ بہت آگے جاتا ہے۔ کینیڈا اور برطانیہ ترقی یافتہ اور بے انتہا امیر ممالک ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت کی فی کس آمدنی بھی پاکستان سے زیادہ ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق کینیڈا کی فی کس آمدنی 43 ہزار 420 ڈالر سالانہ ہے۔ برطانیہ کی فی کس آمدنی 42 ہزار 140 ڈالر سالانہ ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی فی کس آمدنی کا تخمینہ 6490 ڈالر ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان کی فی کس آمدنی صرف 5580 ڈالر ہے۔ آمدنی کے فرق کو دیکھا جائے تو کینیڈا اور برطانیہ کے ایک آدمی کی آمدنی پاکستان کے 8 انسانوں کی آمدنی سے زیادہ ہے۔ بھارت کی فی کس آمدنی پاکستان سے بہت زیادہ نہیں مگر بہرحال بھارت کو بھی آمدنی کے اعتبار سے پاکستان پر فوقیت حاصل ہے۔ اس فرق کے باوجود پاکستان خیرات پر خرچ کے اعتبار سے کینیڈا اور برطانیہ کے ساتھ کھڑا ہے اور بھارت اس حوالے سے پاکستان سے بہت پیچھے ہے۔ بہت پیچھے نہیں بہت، بہت پیچھے ہے۔
برطانیہ اور کینیڈا میں خیرات کے کلچر کی موجودگی کا تعلق اصولی اعتبار سے وسائل کی ’’فراوانی‘‘ سے ہے۔ انسان کا اپنا پیٹ بھرا ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے بارے میں بھی سوچنے لگتا ہے۔ بلاشبہ فراوانی میں دوسروں کا خیال کرنا بھی ایک تہذیب ہی ہے مگر اصل تہذیب یہ ہے کہ وسائل کی قلت میں دوسروں کا خیال کیا جائے۔ اس خوبی کا تعلق انسان کی روحانی، اخلاقی اور تہذیبی حالت سے ہوتا ہے۔ انسان روحانی، اخلاقی اور تہذیبی طور پر زندہ ہوتا ہے تو تب بھی وہ عام وسائل بلکہ وسائل کی قلت کے باوجود دوسروں کے بارے میں سوچتا ہے ورنہ عام اصول تو یہ ہے
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
مگر اسلام اور سیرت طیبہؐ کا پیغام یہ ہے کہ ہر حال میں دینے والے بنو۔ قرآن مجید معاشرے کے کمزور اور محروم طبقات کو زکوٰۃ اور خیرات کے نظام کے ذریعے تحفظ مہیا کرتا ہے اور وہ مدد کے اس عمل کو روحانی فعل قرار دیتا ہے۔ سیرت طیبہؐ کا تجربہ یہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے ایک روز حضرت عائشہؓ سے کہا کہ میری عدم موجودگی میں ایک بکری ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کردیجیے گا۔ حضور اکرمؐ شام کو گھر واپس لوٹے تو حضرت عائشہؓ نے آپؐ کو مطلع کیا کہ بکری ذبح کرادی گئی تھی اور اس کا بیشتر گوشت تقسیم کردیا گیا۔ صرف گوشت کا ایک حصہ رکھ لیا گیا۔ حضور اکرمؐ نے یہ سنا تو فرمایا کہ عائشہؓ جو تقسیم ہوگیا بچ گیا اور جو بچ گیا وہ ختم ہوگیا۔ یہ تناظر، یہ رویہ، یہ طرزِ عمل اسلامی تہذیب اور اسلامی معاشروں پر کچھ نہ کچھ اثر انداز ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی معاشرے اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود غیر مسلم معاشروں سے بعض صورتوں میں بہتر ہوتے ہیں۔
ہندوستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں شور مچا ہوا ہے کہ ہندوستان بڑی معاشی قوت بن کر اُبھر چکا ہے۔ بھارت نے گزشتہ 35 سال میں 25 کروڑ افراد پر مشتمل ایک نئی مڈل کلاس پیدا کی ہے۔ بھارت کی معیشت کی شرح نمو اس وقت چین سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر پاکستان سے بہت زیادہ ہیں۔ مگر خیرات کی مد میں بھارت پاکستان سے بہت پیچھے کھڑا ہے۔ یہ فرق دو معیشتوں کا فرق نہیں ہے۔ یہ دو مذاہب، دو تہذیبوں اور دو اخلاقی نظاموں کا فرق ہے۔ آپ برطانیہ اور کینیڈا کو آج فی کس آمدنی کے اعتبار سے پاکستان کی سطح پر کھڑا کردیں، آپ دیکھیں گے کہ ان معاشروں میں اچانک فراخدلی کا فقدان پیدا ہوجائے گا۔ اس کا تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ امریکا اور یورپی یونین پچاس سال سے اتحادی ہیں، ایک جان دو قالب ہیں مگر امریکا میں معاشی مسائل پیدا ہوئے ہیں تو ٹرمپ نے صاف کہہ دیا ہے کہ یورپ اپنا دفاع خود کرے اور اس کے لیے خود وسائل مہیا کرے۔ یہاں تک کہ ٹرمپ نے صرف چین پر نہیں بلکہ یورپی ممالک کی درآمدات پر بھی محصولات مسلط کردیے ہیں، اس کے جواب میں کینیڈا جیسی امریکی بکری نے امریکی درآمدات پر 16 ارب ڈالر سے زیادہ محصولات اور ڈیوٹیز عاید کردی ہیں اور دیگر مغربی ممالک ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ یورپ کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ جو کررہے ہیں وہ ’’معاشی قوم پرستی‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ امریکا اور یورپ میں معاشی مسائل بڑھے تو دونوں ایک دوسرے کو چیر پھاڑ کر کھا جائیں گے۔ اس کا اثر ممالک کے تعلقات پر پڑے گا تو اس سے معاشرے کے طاقت ور اور کمزور طبقات کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔
افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں 15 لاکھ افغانی شہید اور 15 لاکھ زخمی ہوئے۔ اتنا بڑا جانی نقصان کسی غیر مسلم معاشرے میں ہوتا تو اس میں کئی نفسیاتی، جذباتی اور فکری عوارض پیدا ہوجاتے۔ یورپ میں مذہب اور اخلاقیات کے زوال میں دو عالمی جنگوں کا کردار بہت اہم ہے۔ جرمنی کے ممتاز نو مسلم دانشورو مراد ہوف مین سے ایک بار ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کے سبب پر روشنی ڈالی۔ کہنے لگے میں الجزائر میں اس وقت جرمن کا سفیر تھا جب الجزائر میں جنگ آزادی جاری تھی۔ ان کے بقول انہوں نے دیکھا کہ الجزائر کے لوگ شہید ہوتے ہیں مگر ان کی موت کا اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا جس طرح یورپ میں کسی کی موت کا کیا جاتا ہے۔ میں نے اس کا سبب جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس کا سبب اسلام ہے۔ ہندوستان کے بڑے شہروں کی پبلک ٹرانسپورٹ پر خواتین کے لیے کوئی حصہ یا نشستیں مختص نہیں ہوتیں۔ چناں چہ آپ وہاں دیکھیں گے کہ عورت بس میں کھڑی ہے اور کوئی مرد اسے اپنی سیٹ پر بیٹھنے کی پیشکش نہیں کررہا۔ ہم جب کراچی کی بسوں میں سفر کرتے تھے تو آئے دن دیکھتے تھے کہ خواتین کے حصے میں رش زیادہ ہوجاتا تھا تو مردوں کے حصے میں موجود پانچ سات لوگ اپنی نشستوں سے اُٹھ جاتے تھے اور ان نشستوں پر خواتین کو بٹھا دیتے تھے۔ یہ فرق بھی مذہب، تہذیب اور ان کی بنیاد پر ہونے والی تربیت ہی کا فرق ہے۔
ہمیں یاد ہے کہ پاکستان میں سن 2005ء میں زلزلہ آیا تھا تو پورا معاشرہ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے کھڑا ہوگیا تھا۔ سندھ میں دو سال سیلاب آیا تو تب بھی ہزاروں لوگوں نے اپنے سندھی بھائیوں کی مدد کی۔ امریکا ہر اعتبار سے پاکستان سے کہیں زیادہ طاقتور ملک ہے مگر اس کے ایک شہر نیو اور لیون میں سیلاب آیا تو پورا شہر ڈوب گیا اور کئی دن تک سیلاب زدگان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ لاشیں پانی میں تیرتی پھر رہی تھیں اور انہیں پانی سے نکالنے والا کوئی نہیں تھا۔ امریکا کے ممتاز قوم پرست ٹیلی وژن چینل ’’فوکس نیوز‘‘ کا ایک اینکر گھٹنے گھٹنے پانی میں کھڑا زار و قطار رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ شہر میں نہ کوئی حکومت ہے اور نہ کوئی رضا کار۔
ہمیں یاد ہے کہ 2005ء کے زلزلے سے چند دن قبل ہمارے گھر میں کام کرنے والی ماسی ہم سے پانچ سو روپے مدد کے طور پر لے گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ اسے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ مگر زلزلہ آیا تو جگہ جگہ امدادی کیمپ لگ گئے اور ماسی نے ہم سے لیے ہوئے پانچ سو روپے زلزلے سے متاثرہ افراد کو دے دیے۔ حالاں کہ خود اس کی معاشی حالت متاثرین زلزلہ سے تھوڑی ہی سی بہتر تھی۔ یہ ہے مسلم معاشرے کی اصل روح۔ یعنی اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دینا۔ خود محروم رہ کر دوسرے کو فیض پہچانا۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سن 2006ء میں پاکستان کے اندر زکوٰۃ کی مد میں 250 ارب روپے سے زیادہ کی رقم جمع ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق اس سال صرف رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں 170 ارب روپے سے زیادہ رقم زکوٰۃ کی مد میں جمع ہوگی۔ اگر ہمارا معاشرہ بدترین روحانی، اخلاقی، علمی اور تہذیبی حالت میں بعض حوالوں سے اتنا زندہ ہے تو بہتر یا بہترین حالات میں اس کے ’’رنگ ڈھنگ‘‘ کیسے ہوسکتے ہیں؟ آپ بھی سوچیے ہم بھی سوچتے ہیں۔