ہومیو پیتھ معالجین سے زیادتی

362

پاکستان میں ہومیوپیتھ ڈاکٹر کسمپرسی کا شکار ہیں ۔چیف جسٹس صاحب نے جب سے اتائی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے ،حکومتی اداروں نے اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ہومیوپیتھ معالجین کو تختہ مشق بنالیا ہے ۔خاص طور پر خیبر پختوانخوا اور پنجاب میں تو کئی ہومیوڈاکٹرز کو اتائی قرار دے کر ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ لاہور پریس کلب پر ڈاکٹروں کے احتجاج کے دوران کئی ایسے ڈاکٹر بھی سامنے آئے جو باقاعدہ نیشنل کونسل برائے ہومیوپیتھی سے فاضل ہونے کے ساتھ کالج میں لیکچرار بھی تعینات تھے ۔ اس کے باوجود انہیں اتائی قرار دے کر کلینک سیل کردیے گئے ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے ایک اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب میں 38ہزار سندیافتہ پیشہ ور ہومیو ڈاکٹرز کے کلینک بند کیے جاچکے ہیں ۔اجلاس میں بتایا گیا کہ وزارت صحت ہومیوپیتھ معالجین کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے پر پابندی لگارہی ہے ، جس کے بعد تمام معالج اپنے ساتھ ہومیوڈاکٹر لکھنے کے پابند ہوں گے ۔وزارت صحت کا اقدام اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ اس سے جہاں ہومیوڈاکٹر ز کو معاشرے میں الگ شناخت ملے گی وہاں ان معالجین کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی جو ہومیوڈاکٹر ہو کر ایلوپیتھک ادویات پر پریکٹس کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ ایلوپیتھی کوئی ہمارا قومی طریقہ علاج نہیں ہے ۔اگر ہومیومعالج کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے پر پابندی لگائی جارہی ہے تو یہی فیصلہ ایلوپیتھ معالجین پر بھی لاگو کرتے ہوئے ان کے لیے بھی صرف ڈاکٹر لکھنے پر پابندی ہونی چاہیے ۔طب کے میدان میں ایلوپیتھی کو ہومیوپیتھی کا حریف تصور کیا جاتا ہے ۔اسی تناظر میں ہومیوطریقہ علاج پر قد غن لگاکر اس پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتارہا ہے ۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہی ہے کہ یہ ایک سستا طریقہ علاج ہے ، جس کی معیاری ادویات کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں ۔اس کے بر خلاف ایلوپیتھک ادویات کے بازارمیں کتنے معیار ہوتے ہیں ،کسی سے مخفی نہیں ہے ۔چیف جسٹس صاحب نے اتائیوں کے خلاف کارروائی کا حکم تو جاری کردیا لیکن حکم نامے کی آڑ میں جو سندیافتہ ڈاکٹروں کا استیصال ہورہا ہے اس کانوٹس کون لے گا۔