امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ قومی دولت لوٹنے والوں کو ایوانوں میں نہیں جیلوں میں ہونا چاہیے۔ ملک کو 70برس سے اپنی منزل سے ڈی ریل کیا گیا ہے۔ملک پر استحصالی اور طبقاتی نظام کی تمام تر ذمہ داری فرسودہ قیادت پر ہے۔ چہرے اور پینترے بدل کر لوگوں کے کاندھوں پر سوار ہونا ہی ان لوگوں کی اسپیشلائزیشن ہے۔۔۔لیکن ذرا ٹھیریے۔ فرسودہ قیادت پر بات کرنے سے پہلے اس شجر کا ذکر ہوجائے جسے سینیٹر سراج الحق نے استحصالی اور طبقاتی نظام کہا، اسمبلیاں جس کی شاخیں ہیں جن کے بارے میں محترم سراج الحق نے کہا ہے کہ قومی دولت لوٹنے والوں کو وہاں نہیں ہونا چاہیے۔ تو صاحبو اسمبلیوں میں بیٹھے قومی دولت لوٹنے والے جس استحصالی نظام کے نمائندہ ہیں وہ اگر سونے کی چڑیا ہے تو اس سونے کی چڑیا کے پر بھی نہیں غریبوں کے ہاتھ نہیں لگتے ۔ اصل سونے کی چڑیا اس فرسودہ قیادت کے ہاتھ لگتی ہے اس سسٹم میں جن کی دولت میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارے ہاں جو جمہوریت رائج ہے اس میں عوام کو جو کچھ مہیا کیا جاتاہے وہ ساٹھ سیکنڈ کی آزادی ہے۔ ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کی آزادی۔ اس کے بعد عوام کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں رہتا کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ انہیں اس بات کی آزادی تو ہوتی ہے کہ وہ
حکمرانوں کو برا بھلا کہہ سکیں جن کا ان پر کوئی اثر نہیں۔ وہ ہر طرح کے خوف کے بغیر جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ریاست اور ریاستی امور پر اقتدار کا مطلب ہزاروں لوگوں کی موت یا زندگی خوشی یا غمی ہے۔ ہمارے ان برسراقتدار لوگوں نے عوام کے لئے موت یا زندگی میں سے موت، خوشی یا غمی میں سے غم کا انتخاب کیا ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ان لوگوں نے اقتدار کو اپنی ذاتی دولت میں اضافے کا ذریعہ بنایا ہے اور ملک کو اتنا لوٹا ہے کہ اس کی ہڈیاں بھی چبا ڈالی ہیں۔ جس کی کرپشن اور چوری کا ذکر آتا ہے وہ اربوں میں ہوتی ہے۔
بات قومی دولت لوٹنے والوں کی ہورہی تھی جوترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں جنہیں ایوانوں میں نہیں جیلوں میں ہونا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام ترتیب ہی اس طرح دیا گیا ہے کہ اسمبلیوں میں سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، ان کے گماشتے اور اشرافیہ سے وابستہ لوگ ہی پہنچ سکتے ہیں۔ 1973ء کے آئین میں نو آبادیاتی ایکٹ کی نقل کرتے ہوئے اسمبلیوں کی بے تحاشا بڑی نشستیں مقرر کی گئیں جن میں صرف سرمایہ دار، وڈیرے، فیوڈل سردار اور ارب پتی سرمایہ دار ہی پہنچ سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہی انتہائی مہنگے الیکشن لڑنے کی سکت رکھتے ہیں۔ گزشتہ آٹھ انتخابات میں فیصل آباد کے دیہی علاقوں پر مشتمل نشستوں کے انتخابات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر مرتبہ کامیاب ہونے والوں کا تعلق وہاں کے چھ امیر ترین خاندانوں میں سے ایک کے ساتھ ہے۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں امریکا اور دیگر جمہوری ممالک میں بھی جس کے پاس پیسے ہوں صرف وہی اسمبلیوں میں پہنچ سکتا ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکنز دونوں امریکا کے مراعات یافتہ طبقوں کے مہروں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔ مغربی جمہوریت عملی طور پر مراعات یافتہ طبقوں کی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے جو امیروں کو بہت زیادہ امیر اور غریبوں کی غربت میں اضافہ کررہی ہے۔ امریکا میں جب جب کسانوں مزدوروں اور دانشوروں نے اپنی پارٹیاں بنائیں انہیں سرمایہ دار طبقے نے پنپنے نہیں دیا۔ امریکا ہو یا پاکستان یا کوئی اور جمہوری ملک ایوان اقتدار تک رسائی دولت کا کرشمہ ہے۔
تمام مسائل کا واحد حل اسلام کے نفاذ میں پوشیدہ ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت انہوں نے ملک و ملت کو مسائل اور بحرانوں سے دوچار کیا ہے۔سینیٹر سراج الحق نے جس استحصالی اور طبقاتی نظام کی بات کی ہے وہ اپنی اصل میں سرمایہ دارانہ نظام ہے ۔ دنیا نے اپنے مسائل کے حل کے لئے عہد جدید میں کمیونزم اور سرمایہ داریت پر انحصار کیا ہے۔ کمیونزم مختصر سی مدت میں دم توڑ گیا۔ اب پوری دنیا میں سرمایہ داریت کا راج ہے۔ پاکستان میں بھی جمہوری حکومتیں ہوں یا فوجی ملک سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کیا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کی پہلی بات تو یہی ہے کہ دین اور دنیا کے معاملات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ان کا دائرہ عمل الگ الگ ہے۔دوسری یہ کہ ہر شخص آزادئ عقیدہ، آزادئ رائے اور شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ منافع کمانے یا ملکیت بنانے میں بھی آزاد ہے۔حکومت مارکیٹ کی قوتوں کے معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرے گی۔یہ سود خور بینکاروں اور سرمایہ داروں کا پھیلایا ہوا وہ جال ہے جس کا مقصد ہر جائز ناجائزطریقے سے منافع کمانا ہے۔
خواہ یہ روزمرہ کی ضروری چیزوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچاکر حاصل کیا جائے یا کرپشن کرکے یا ٹیکس چراکے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیسا سرمایہ داروں کے پاس جمع ہوتا چلا جاتا ہے۔اتنا کہ قارون بھی دیکھے تو آہ سرد بھرے۔اس طرح اصل طاقت سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے نتیجہ امیر زیادہ امیر اور غریب،غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔آج یہ نظام امریکا میں بھی دم توڑ رہا ہے۔مشہور زمانہOccupy Wall Streetاسی نظام کی تدفین کا انتظام تھا جس میں امریکی عوام اس نظام کے خلاف سڑکوں پر اور پارکوں میں جوش و غضب سے نعرے لگارہے تھے،بینرز اور پلے کارڈز بلند کررہے تھے۔ان بینروں پر کیا لکھا تھا۔ان پر لکھا تھاCapitalism Is Organized Crimeسرمایہ داریت ایک منظم جرم ہے اور ہم ننانوے فیصد ہیںWe Are 99%۔جن لوگوں پر یہ نظام کئی دہائیوں سے نافذ ہے آج وہ اس نظام سے چھٹکارا پانے کے لئے مجسم احتجاج ہیں۔
پاکستان کے عوام کی اکثریت اسلام کا نفاذ چاہتی ہے۔ پاکستان کے عوام پاکستان کو احکامات خداوندی کی تعمیل کا ذریعہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں رائج نظام اسلامی نہیں ہے۔ یہ قرآن اور سنت سے اخذ کردہ نہیں ہے بلکہ یہ اپنی بنیاد اساس اور تفصیلات میں اسلام سے متناقص ہے۔اسلامی نظام اور اسلامی ریاست کوئی خواب واہمہ یا خیالی تصور نہیں ہے یہ وہ نظام ہے جوخلافت کی صورت میں تیرہ سو برس سے زیادہ عرصے تک تاریخ رقم کرتا رہا۔ محترم سراج الحق اس نظام سے نجات کی بات کرتے ہیں تو دراصل اس کے متبادل کے طورپر وہ اسلام کی بات کرتے ہیں۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ اسلام ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔