پاکستان آبی جارحیت کے نرغے میں

342

’’جسارت‘‘ نے چند روز قبل اپنے ایک ادارتی نوٹ میں پانی کی کمیابی اور اس کے ضیاع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور آنے والے پانی کے سنگین بحران سے خبردار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پانی کے بغیر انسانی زندگی کیا کسی بھی حیوانی حیات کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پانی ہماری زندگی کے لیے سب سے اہم اور ناگزیر ضرورت ہے۔ ذمے دار حکومتیں جب اپنی ترجیحات کا تعین کرتی ہیں تو سب سے پہلے شہریوں کے لیے آب خوشی اور دیگر ضروریات کے لیے پانی کی فراہمی اور زراعت کے لیے پانی کی دستیابی پر توجہ دیتی ہیں کہ اس کے بغیر زندگی کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اندرون ملک دستیاب آبی وسائل کا نہایت دِقت نظر سے جائزہ لیا جاتا ہے اور انہیں محفوظ اور کارآمد بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس منصوبہ بندی میں زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر کی تعمیر کو اولیت حاصل ہوتی ہے لیکن افسوس اس حوالے سے جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت کو چھوڑ کر تمام سول اور فوجی حکومتیں مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔ ایوب دور میں تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور ورسک ڈیم کے منصوبے مکمل نہ ہوتے تو آج نجانے ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیوں کہ اِن منصوبوں کی تکمیل اور ان کے آپریشنل ہونے کے بعد بھارت کے کان کھڑے ہوگئے تھے اور اس نے طے کرلیا تھا کہ وہ پاکستان کو مزید ڈیم نہیں بنانے دے گا خواہ اس کے لیے اسے پاکستان میں ڈیم مخالف لابی قائم کرنے پر کتنی ہی بھاری سرمایہ کاری کیوں نہ کرنی پڑے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو روکنے اور اسے سیاسی اعتبار سے متنازع بنانے کے لیے اتنا سرمایہ بہایا ہے کہ اس سے پاکستان میں کئی ڈیم بن سکتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ 1970ء کی دہائی میں سرحدی گاندھی عبدالغفار خان بھارت کے طویل دورے میں اپنی غیر معمولی پذیرائی کے ذریعے سونے میں تُلنے اور نوے لاکھ (جس کی موجودہ زمانے میں قیمت 9 ارب سے کم نہ ہوگی) کی تھیلی وصول کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ کالا باغ ڈیم ان کی لاش پر ہی بن سکتا ہے۔ ان کے بیٹے عبدالولی خان نے بڑھک ماری کہ کالا باغ ڈیم بنا تو ہم بم مار کر اسے تباہ کردیں گے اس کے بعد تو کالا باغ ڈیم کی مخالفت اے این پی (پہلا نام این اے پی) کا وظیفہ بن گیا اور اس کے لیڈر کھڑے بیٹھے سوتے جاگتے اس کی مخالفت کرنے لگے پھر بھارت نے اے این پی پر ہی تکیہ نہیں کیا اس نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کے لیے پاکستان کی تمام قوم پرست جماتوں پر سرمایہ کاری کی اور اتنا غبار اُڑایا کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت سیاسی فیشن بن گیا اور پیپلز پارٹی ایسی قومی جماعت بھی اس لہر میں بہہ گئی، کوئی عجب نہیں کہ پیپلز پارٹی کو بھی بھارت نے نوازا ہو آخر اس پر بھارت کے خلاف سکھوں کی خالصتان تحریک کو سبوتاژ کرنے کا الزام بھی تو ہے۔
پاکستانی حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کی سوئی کالا باغ ڈیم پر ہی اڑی رہی، اگر کالا باغ ڈیم نہیں بن پارہا تھا تو نہ سہی ملک میں چھوٹے چھوٹے ڈیموں کا جال بچھادیا جاتا جن میں بارش اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہوتی۔ بے شک ان سے بجلی پیدا نہیں کی جاسکتی تھی لیکن زراعت کے لیے تو پانی دستیاب ہوتا اور ہماری ہزاروں ایکڑ اراضی بنجر ہونے سے تو بچ جاتی، لیکن ہماری نااہل حکومتیں یہ کام بھی نہ کرسکیں۔ (ن) لیگ کی حکومت نے جاتے جاتے مشترکہ مفادات کونسل میں ایک آبی پالیسی ضرور پیش کی جس میں ترجیحی بنیادوں پر آبی ذخائر بنانے اور موجودہ بیراجوں کی گنجائش بڑھانے پر زور دیا گیا ہے اور چاروں صوبوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پانی کے وسائل کی ترقی اور مسائل کے حل کے لیے ترقیاتی بجٹ کا دسواں حصہ مختص کیا جائے لیکن یہ کام کیسے ہوگا اس کے لیے آبی پالیسی میں کسی ایکشن پلان کا ذکر نہیں۔ اب جو نئی حکومت آئے گی یہ اس کا دارد سر ہے کہ وہ ایکشن پلان بنائے اور اس پر عملدرآمد کرے۔
آبی وسائل کی ترقی کے حوالے سے پاکستانی حکومتوں کی نااہلی اپنی جگہ، پاکستان کو اصل خطرہ بھارت کی آبی جارحیت سے ہے جو پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روک کر ایک زرعی اور سرسبز شاداب ملک کو بے آب و گیاہ بنانا چہتا ہے اور اپنے اس مذموم منصوبے پر نہایت مستعدی اور تیز رفتاری سے عمل کررہا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ بھارت کے ساتھ جنرل ایوب خان کے زمانے میں ہوا تھا جس میں عالمی بینک نے بطور ضامن شرکت کی تھی اور پاکستان کو یقین دلایا گیا تھا کہ بھارت پاکستان آنے والے دریاؤں کا پانی روکنے اور ان پر ڈیم بنانے کی کوئی کارروائی نہیں کرے گا لیکن بھارت نے اس معاہدے کی کوئی پاسداری نہیں کی اور معاہدے کے چھ برس بعد ہی تین اہم دریا راوی، بیاس اور ستلج تیزی سے خشک ہونے لگے اب ان دریاؤں میں صرف سیلاب کا پانی آتا ہے اور اردگرد کی آبادیوں میں تباہی مچا کر چلا جاتا ہے۔ بھارت نے ان دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیمز تعمیر کرلیے ہیں اور دریاؤں کا رُخ موڑ دیا ہے۔ جب کہ باقی تین دریا چناب، جہلم اور سندھ بھی بھارتی جارحیت کی زد میں ہیں۔ بھارت صرف دریائے چناب پر چوبیس ڈیم تعمیر کررہا ہے جس کی تفصیل حال ہی میں ایک پاکستانی اخبار نے شائع کی ہے۔ دریائے جہلم پر بھی ڈیم اور بیراجوں کی تعمیر کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔
بھارتی وزیراعظم نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر آکر کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کیا ہے جس کے خلاف پاکستان عالمی بینک میں شکایت لے کر گیا تھا لیکن عالمی بینک نے اسے لال جھنڈی دکھادی۔ سندھ طاس معاہدہ موجود ہے دونوں ملکوں کا مشترکہ کمیشن بھی کام کررہا ہے اس کے اجلاس بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی کہیں سنی نہیں جاتی۔ ہوتا وہی ہے جو بھارت چاہتا ہے، بھارت کا آخری ہدف پاکستان کو سندھ کے پانی سے محروم کرنا ہے۔ وہ اس کے لیے پچاس ارب ڈالر کی لاگت سے زیر زمین سرنگ تعمیر کررہا ہے جس کے ذریعے وہ دریائے سندھ کا رُخ موڑ دے گا اور پاکستان سندھ کے ایک ایک قطرے کو ترستا رہ جائے گا۔
یہ تو ہے بھارت کی پاکستان کے خلاف براہ راست آبی جارحیت، اب اس کی بالواسطہ آبی جارحیت کا احوال بھی سنیے۔ افغانستان سے نکلنے والا دریائے کابل خیبرپختونخوا میں آبپاشی کی اسّی فی صد ضرورت پوری کرتا ہے، بھارت نے دریائے کابل کا پانی روکنے کی منصوبہ بندی بھی کی ہے اور افغان حکومت کو دریا کے مختلف مقامات پر بارہ ڈیم تعمیر کرنے کا مشورہ دیا ہے، محض مشورہ نہیں بلکہ ان مجوزہ ڈیموں کی فزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کرکے افغان حکومت کو پیش کردی ہے جو ایک خطرناک عمل ہے۔