افغان امن کی راہ میں اصل رکاوٹ امریکا

297

اگرچہ یہ بار بار ثابت ہو چکا ہے کہ افغان امن عمل کی راہ میں صرف امریکا رکاوٹ ہے لیکن ایک مرتبہ پھر افغان صدر اشرف غنی نے اس امر کی تصدیق کردی ہے کہ جوں ہی افغان طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کیا اس کے فوراً بعد ایک حملے میں تحریک طالبان کے لیڈر ملا فضل اللہ کو قتل کردیا گیا۔ اشرف غنی نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بتایا کہ ملافضل اللہ پر حملہ امریکی ڈرون کے ذریعے کیا گیا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس حملے کی ذمے داری منتقل کرنے سے کوئی فرق پڑ جائے گا۔ پاکستان اور افغانستان میں درجنوں ایسے حملے ہیں جن کے بارے میں ابتدائی اطلاعات یہ ہوتی ہیں کہ پاک فوج نے یا افغان فوج نے حملہ کر کے فلاں فلاں لوگوں کو ہلاک کردیا۔ لیکن بعد میں اس کی تصحیح جاری کی جاتی ہے کہ جی نہیں یہ حملہ دراصل امریکی ڈرون تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قندوز کے مدرسے پر حملے کی ابتدائی رپورٹ یہ تھی کہ یہ حملہ امریکی ڈرون کا تھا۔ اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیکڑوں طالبان دہشت گرد ہلاک کردیے گئے لیکن جب مدرسے میں ختم قرآن اور دستار بندی کی تقریب کی خبر سامنے آئی تو امریکی دباؤ پر افغان حکومت نے خود اعتراف کیا کہ یہ حملہ تو افغان فورسز نے کیا تھا۔ ایسے کئی اعترافات پاکستان سے بھی کرائے جاچکے ہیں ۔ فی الوقت جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ عین اس وقت جب ایک عارضی جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا امریکی حکام نے اس کو مسترد کیوں کیا۔ امریکا دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے لیکن اسے افغانستان کا امن کیوں پسند نہیں ۔ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے گویا وہ اپنے حلیف ملک کو پرامن نہیں دیکھ سکتا۔ اگرچہ افغان صدر نے پاکستانی آرمی چیف سے رابطہ کر کے انہیں یہ بتایا ہے کہ یہ حملہ امریکی ڈرون حملہ تھا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ افغان حکومت بھی یہ حملہ نہیں چاہتی تھی۔ لیکن ایک بار پھر اس امر کی تصدیق ہوگئی کہ افغانستان میں عارضی، مستقل یا کسی بھی قسم کی جنگ بندی امریکا کو قبول نہیں چنانچہ اب صورت حال یہ ہے کہ افغان حکومت نے جنگ بندی میں توسیع کی درخواست کی لیکن طالبان نے مسترد کردی۔ اگرچہ طالبان نے یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ وہ ایسا ملافضل اللہ کی ہلاکت کی وجہ سے کررہے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ جب جنگ بندی کی پیشکش کے جواب میں ڈرون حملے کیے جائیں گے تو طالبان بھی جواب میں پھول نہیں پھینکیں گے۔ یہ کہانی ملا منصور، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے معاملے میں بھی تھی۔ جب جب افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات یا بات چیت کی راہ ہموار ہونے کی باتیں ہوتی ہیں امریکی ڈرون یا امریکی دباؤ پر پاکستانی یا افغان حکومت کارروائی کردیتی ہے۔ پھر افغانستان میں امن کیسے ہوگا۔ بموں سے امن ہوتا تو دنیا کب کی پرامن ہو چکی ہوتی۔ یمن، فلسطین،شام، عراق، افغانستان، کشمیر دنیا بھر میں بارود پھینکا بلکہ بہایا جارہا ہے اور امن ناپید۔