صرف نگرانی نہیں

268

خدشات، توقعات، بے یقینی، بدانتظامی کے ماحول میں پاکستانی قوم انتخابی عمل میں شریک ہوگئی ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے یہ اعلان بڑا اہم ہے کہ انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں گے۔ ابتدا میں تو یہ خدشات تھے کہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ پھر یہ بے یقینی تھی کہ کوئی خلائی مخلوق کسی بھی وقت کارروائی کر ڈالے گی اس کے علاوہ الیکشن کمیشن سابقہ حکومت اور نگران حکومت کی جانب سے بہت سے معاملات میں بدانتظامی اپنی جگہ ، انتخابی حلقہ بندیاں، کراچی کی آبادی، انتخابی فہرستیں، انتخابی عملہ وغیرہ یہ بہت بڑے بڑے سوالات ہیں ۔ ان سوالات کے جوابات قوم کو نہیں ملے ہیں یا جو بتایا گیا ہے وہ قابل اطمینان نہیں ہے۔ شفاف انتخابات کے لیے اقدامات کے ساتھ ساتھ انتخاب منعقد کرانے والوں کا ٹریک ریکارڈ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصی طورپر کراچی کے ووٹرز کے لیے یہ خبر خاصی اطمینان کا باعث ہے کہ انتخابات فوج کی زیر نگرانی کرائے جائیں گے۔ اس کے بعد سے میڈیائی دانشوروں نے ایک فضا بنانا شروع کردی ہے کہ اب تو انتخابات شفاف ہوں گے۔ بلاشبہ فوج اپنے نام کو کسی بھی پارٹی یا گروپ کے ساتھ نتھی کرنا پسند نہیں رکے گی اس لیے یہ خیال تو غلط ہوگا کہ فوج کی جانب سے کسی پارٹی کو کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت ملے گی لیکن صرف نگرانی میں انتخابات کے اعلان سے انتخابات شفاف اور منصفانہ کیوں کر ہوسکتے ہیں۔ انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں وہ تو کیے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ فوج کو کیا دیا جارہا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کی مرضی کا انتخابی حلقہ، سندھ میں پیپلز پارٹی کی مرضی کے انتخابی حلقے ، پنجاب میں مسلم لیگ کی مرضی کے انتخابی حلقے اور ان پارٹیوں کی مرضی کی انتخابی فہرستیں دے کر انتخابات منصفانہ کرانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ ببول کاشت کر کے گلاب حاصل کرنے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔ پھر اس کی نگرانی اقوام متحدہ کرے یا پاکستانی فوج نتائج تو وہی نکلیں گے۔ ایک اہم بات پاک فوج کے لیے بھی ہے کہ ان پر بار بار پی ٹی آئی کی حمایت اورسرپرستی کا لیبل چسپاں کیا جارہا ہے اگر انتخابات کے دوران کسی جگہ اس کا ایک بھی مظاہرہ سامنے آیا تو فوج کی ساکھ پھر خراب ہوسکتی ہے۔ جنرل شجاع پاشا کے بعد سے فوج نے بمشکل سیاسی پارٹیوں سے خصوصاً پی ٹی آئی سے فاصلہ پیدا کیا ہے۔ اگر انتخابی عمل ، انتخابات کے دن یا پولنگ کے بعد نتائج مرتب کرتے وقت کسی قسم کا جھکاؤ فوج کی ساکھ کو خراب کرنے کا سبب بنے گا۔ بہرحال یہ احتیاط تو فوج کے ذمے ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن کی اپنے ضابطۂ اخلاق کے اجراء میں تاخیر، انتخابی عملے، حلقہ بندیوں، فہرستوں ، انمٹ سیاہی، انتخابی ضرورت کے لیے ضروری اشیا کی فراہمی وغیرہ کا اہتمام کرنا یہ سارے کام تو فوج نہیں کرتی۔ عموماً بیلٹ باکس تاخیر سے پولنگ اسٹیشن پہنچنا، باکس کو بند کرنے کے لیے پلاسٹک لاک کی کم تعداد میں فراہمی، انگوٹھے پر لگائی جانے والی روشنائی کا غیر معیاری ہونا یہ شکایات عام ہیں ۔ جب بیلٹ باکس مقفل نہ ہوگاتو اس میں کچھ بھی ڈالا جاسکتا ہے اور نکالا جاسکتا ہے۔ یہ سارے کام انتخابی عملہ کرتا ہے اور انتخابی عملہ غیر سیاسی نہ ہو اور کسی پارٹی کا ورکر ہو تو انتخابی دھاندلیوں کے امکانات بہت زیادہ موجود رہتے ہیں ۔ فوج کی نگرانی کے اعلان سے جہاں اطمینان ہوا ہے وہیں پاک فوج کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئی ہیں ۔ اب ایک جانب انتخابات منصفانہ اور شفاف بنانے ہیں تو دوسری جانب اپنی ساکھ کو بھی بچانا ہے۔ نگران حکومت الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز اور اشیا مہیا کرے جبکہ ضابطۂ اخلاق کی سختی سے پابندی کرائے جو کام اس کو کرنا ہے وہ کرے اور الیکشن کمیشن کو جو کام کرنا ہے اسے کرنے پر مجبور کرے۔ پھر فوج کا انتخابات کی نگرانی کرنا بھی کارآمد ہوگا۔ ورنہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ فوج نگرانی کرچکی ہے خود فوجیوں نے شکوہ کیا تھا کہ ہمیں اندر مداخلت کی اجازت نہیں ہے جتنا مینڈیٹ ہے اتنا ہی کام کریں گے۔ امن و امان میں خلل برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اسے روکنے کا اختیار ہمیں نہیں دیا گیا۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس جانب بھی غور کرنا ہوگا۔