اچھے فیصلے کی معطلی نامناسب

326

گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز کی عدالت کے اس فیصلے پر سب نے ہی خوشی کا اظہار کیا تھا کہ رمضان المبارک میں انعامات بانٹنے کے نام پر ہونے والے ٹی وی پروگرام بند کردیے جائیں اور پانچ وقت کی اذان نشر کی جائے۔ ابھی لوگ پوری طرح خوش بھی نہیں ہونے پائے تھے اور فیصلے کے اطلاق کے منتظر تھے کہ عدالت عالیہ کے ایک دوسرے بینچ نے اس حکم کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا۔ عدالت عالیہ کے پہلے فیصلے میں پیمرا کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کا حکم بھی دیا گیا تھا جو کہ پیمرا خود بھی بھول بھال جاتا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف پاکستان براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن اور نجی ٹی وی نے اپیل دائر کردی۔ اس کی سماعت پر اسلام آباد کے دو جج عامر فاروق اور محسن اختر نے اذان نشر کرنے کے فیصلے کو معطل قرار دے دیا۔ لہٰذا ایک اچھا فیصلہ رمضان میں نافذ نہ کیا جاسکا۔ یوں نجی ٹی وی چینلوں کو رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں بیہودگی پھیلانے کی چھوٹ مل گئی۔
حیرت ہوتی ہے کہ کیا نجی چینلوں کے مالکان مسلمان نہیں؟ کیا انہیں مرنے کا خوف نہیں؟ آخرت کے دن کے حضوری سے منکر ہیں؟ بھلا کیسے وہ اُس دن اپنے آپ کا دفاع کریں گے جہاں انہیں کوئی وکیل میسر ہوگا نہ پیسہ چلے گا نہ دھونس دھاندلی۔ اور ان دو ججوں کا یہ کیسا فیصلہ ہے کہ اذان نشر کرنے پر پابندی لگادی گئی۔ اگرچہ ابھی مکمل فیصلہ محفوظ ہے۔ مئی کی ابتدا میں رمضان شروع ہونے سے قبل جسٹس شوکت عزیز نے اپنے فیصلے کے ریمارکس میں کہا تھا کہ مسلمانوں کے لیے اذان سے بڑی بریکنگ نیوز کوئی نہیں۔ اسلام کا تمسخر اُڑانے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔ لیکن نجی چینلوں کو بھلا کس کی اجازت کی ضرورت ہے وہ تو اپنا کاروبار چمکانے پر لگے ہوئے ہیں۔ چاہے اس سے اخلاق و کردار کا کیسا ہی جنازہ نکلے۔ مذہبی اقدار اور روایات کا مذاق بن کر رہ جائے۔ نوجوان نسل کی رہنمائی کے بجائے ان کو ذہنی طور پر پراگندہ کرکے رکھ دیا جائے، معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو، ہمیں کیا، ہمیں تو اپنے منافع اور اپنے بینک بیلنس کی پروا ہے۔ جس کے لیے ہم ہر طرح کی کوشش کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دس پندرہ سال قبل جب نجی چینلوں کی پنیری لگائی گئی تھی تو یہ کہا گیا تھا کہ مقابلے اور مسابقت کے ذریعے معیار میں اضافہ ہوگا۔ آج کسی سے بھی پوچھا جائے تو پرانے زمانے کے ٹی وی پروگراموں کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے معیار اس کے زباں بیاں کے گن گاتا ہے۔ نجی چینلوں کی پنیری جب لہلہانے لگی تو خوب مفادات اور اشتہارات کی فصلیں کاٹی گئیں، معیار بلند ہونے کے بجائے پڑوسی ملکوں کی فلموں، ڈراموں اور ایوارڈ شوز کو دکھانے کی بھرپور اجازت دے دی گئی۔ ناچنا گانا سکھانے کے لیے نوجوان نسل کے علاوہ ننھے بچوں کا انتخاب کیا گیا۔ آخر کارخواتین کے پرزور احتجاج پر اس پروگرام کو روکا۔ لیکن پرنالا مفادات کا تھا لہٰذا کہیں نہ کہیں تو گرنا ہی تھا۔ اشتہارات میں بیہودہ کپڑوں کے ساتھ رقص ضروری ہوگیا، اشتہاری کمپنیاں مصنوعات کی فروخت کے لیے اپنے اشتہارات میں رقص و سرود کی ثقافت کو متعارف کروانے کے لیے آپس ہی میں مقابلوں پر اُتر آئے ہیں۔ کہ کون کتنے کھلے اور کم لباس کے ساتھ رقص کرواسکتا ہے۔ حالانکہ جب دولہن اور دولہا کے لباس میں ایک ہجوم رقص میں مست ہو تو دیکھنے والے کو کب یاد رہتا ہے کہ اشتہار کس چیز کا ہے۔ اشتہاری کمپنیاں اور اشتہار دینے والی کمپنیاں دونوں اس بات کو نظر انداز کررہی ہوتی ہیں کہ وہ لوگوں کا ذہن کس چیز کے لیے تیار کررہے ہیں۔
پیمرا کو اس سلسلے میں بھی اپنے قوانین کا جائزہ لینا چاہیے اور عدالت کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ میڈیا ایک صنعت کا روپ اپنا چکا ہے۔ اپنے مفادات کے لیے ضابطے اور اخلاق کے کسی بیرومیٹر کی پابندی کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ لیکن دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی قومی مفاد اور اپنی اقدار و روایات کا تحفظ مرکزی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور عدالت اس کی بنیاد ہے۔ دوسری طرف چینلوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کو بھی اسلامی اقدار اور تہذیب پر تیشہ چلاتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ قرآن صاف صاف کہتا ہے ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں‘‘۔