جنرل مشرف !!!گھر کب آؤ گے؟

347

عدالت ایک بار پھر راہ تکتی رہ گئی کمانڈو حکمران نہ آنا تھا نہ آئے۔ عدالت عظمیٰ نے پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا حکم واپس لے لیا۔ عدالت نے جمعرات 14جون کی دوپہر تک انہیں اصالتاََ حاضر ہونے کے موقع دیا تھا مگر ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جنرل مشرف ملک واپس آنے پر تیار ہیں مگر عید الفطر کی تعطیلات کی وجہ سے ان کی واپسی کا انتظام نہیں ہوسکا ۔عدالت کی طرف سے دئیے وقت پر نہ پہنچنے کی وجہ سے ان کے کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا حکم واپس لے لیا گیا اور کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔ اس طرح عدالت کی طرف سے ایک بھرپور موقع فراہم کیے جانے کے باوجود جنرل مشرف وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا نہ کر سکے۔ عدالت نے جنرل مشرف کے تمام خوف دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی جن میں ان کو گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی شامل تھا۔ جنرل مشرف کا موقف یہی تھا کہ انہیں وطن واپس جا کر انتقامی کارروائی کا نشانہ بننے کا خدشہ ہے کیونکہ ان کے بقول تمام مقدمات سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے ہیں۔جنرل مشرف اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویوز میں وطن واپسی اور انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے عدالتی احکامات پر چیف جسٹس ثاقب نثار کو تھینک یو بھی کہہ چکے تھے اور وہ وطن واپسی کے حوالے سے رخت سفر باندھنے کا عندیہ بھی دیتے رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے ایک عہدیدار بھی واپسی کی تیاریوں کی منظر کشی کچھ اس انداز سے کر چکے ہیں کہ یوں محسوس ہورہاتھا کہ اگلے ہی کسی لمحے جنرل مشرف کا طیارہ پاکستانی ائر پورٹ پر اترے گا۔ اب جبکہ عدالت نے ان کی وطن واپسی کی تمام مشکلات دور کر دی تھیں اور اس بات کا قومی امکان تھا کہ جنرل پرویز مشرف اپنی اناکو بالائے طاق رکھ کر خود کو قانون کے حوالے کریں گے ایک بار پھر وہ واپس نہیں آئے۔ عدلیہ نے اپنے ریمارکس کے ذریعے یہ یاد دلانے کی کوشش کی وہ ایک کمانڈوہیں اور کمانڈو ہوتے ہوئے انہیں کس بات کا خوف ہے۔ انہیں یہ خوف اس وقت کیوں نہیں تھا جب انہوں نے اتنے بڑے ملک پر قبضہ کیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر انہیں رعشہ ہے تو پھر وہ اپنا مشہور زمانہ مُکا کس طرح لہرائیں گے۔یہ وہ مُکا ہے جو انہوں نے 12 مئی کو کراچی کے قتل عام کے بعد لہراتے ہوئے کہا تھا کہ عوام نے اپنی طاقت دکھا دی ہے۔ جنرل مشرف اگر واقعی انتخاب لڑنے میں سنجیدہ ہوتے تو انہیں عدالت کے فراہم کردہ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وطن واپس آنا چاہئے تھا مگر وہ ایک بار قانون سے کنی کترا گئے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی کے لیے یہ بات ناگزیر ہے کہ ہر صاحب اقتدار اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے کو اپنے افعال واعمال کے لیے قانون کے آگے جواب دہ ہونا چاہیے۔ 2قانون او ر 2اصول اور 2میعار وپیمانے معاشروں کو تباہ کردیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف پاکستان کے چار فوجی حکمرانوں ایوب خان ، یحییٰ خان اور ضیاء الحق میں سے واحد زندہ شخصیت ہیں۔ ان کے قریب ترین فوجی حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ جنرل ضیا الحق کی سوچ وفکر اور تہذیبی پس منظر نے ان کی خوبیوں کو بھی بہت سوں کے لیے خامیوں میں بدل دیا ہے وہیں جنرل مشرف کے لبرل ازم اور روشن خیال اعتدال پسندی کی سوچ نے ان کے بہت سے عیب بھی چھپا رکھے ہیں۔ پاکستان میں لبرل ازم کا دعوے دار طبقہ بھی عجیب مخلوق ہے جس کا اپنا ہی میعار حق وباطل ہے درست اور غلط کے الگ الگپیمانے اور باٹ ہیں جو عمومی طور پرمعاشرے اور عامیوں میں مستعمل اور مروج نہیں۔ یہ اپنی پسند وناپسند کے مطابق کسی کے غلط اور درست ہونے کا فیصلہ کرتا ہے جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے بارے میں بھی یہ طبقہ انہی دو رویوں کاشکار ہے۔ ملک کے سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف عدالت عظمیٰ نے ان کو فوری گرفتار نہ کرنے کے احکامات دیتے ہوئے ہوئے انہیں الیکشن لڑنے اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی اجازت دے دی ہے ۔ جس کے بعد جنرل مشرف نے جہاں ’’تھینک یو چیف جسٹس ‘‘ کہا ہے وہیں میاں نوازشریف نے حسب روایت عدالت کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔عدالت جنرل پرویز مشرف کئی مقدمات میں عدالتوں کو مطلوب ہیں۔ عدالتیں انہیں مفرور قرار دے چکی ہیں کچھ ہی عرصہ قبل ان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔ وہ علاج کے بہانے ملک سے باہر چلے گئے تھے اور واپس آنے سے انکاری تھے تاہم ان کے مقدمات کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا ہوتا بھی کیسے جنرل پرویز مشرف نے کبھی عدالتوں میں پیش ہونے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ان کی بیرون ملک روانگی اور طویل قیام کو بنیاد بنا کر ریاستی اداروں پر تنقید کا سلسلہ جاری تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے وابستگان ٹاک شوز میں اس مسئلے کو ایک تضاد کے طور پر نمایاں کرتے تھے۔ اس بات میں کسی حد تک وزن بھی تھا۔ جنرل پرویز مشرف طویل عرصے تک برسراقتدار رہ چکے ہیں اور یہ پاکستان کی تاریخ کا متنازع ترین دور تھا جس میں متنازعہ ترین فیصلے ہوئے اور ان فیصلوں کے پاکستان کے سماج اور سلامتی اور امن واستحکام پر تباہ کن اثرات بھی مرتب ہوئے۔ اس لحاظ سے پرویز مشرف کو بھی اپنے فیصلوں اور ان کے اثرات کے حوالے سے جواب دہ ہونا چاہیے۔ نجانے کیوں ان کی قانون کی آگے پیشی اور سپردگی کو قومی اور فوج انا اور غیرت کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔