۔34 سال بعد بات سمجھ میں آئی؟

391

پاکستان مسلم لیگ ن کے دیرینہ رہنما چودھری نثار نے پارٹی سے راہیں جدا کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہاہے کہ 34 برس تک شریف خاندان کا بوجھ اٹھایا ہے ان کا کردار سامنے لانا چاہتاہوں۔ اپنے ہاتھ سے مسلم لیگ ن کی ایک ایک اینٹ رکھی۔ عوام ٹکٹ والوں اور بے ٹکٹوں کو دریا میں بہادیں۔ چودھری نثار نے یہ باتیں چکری میں اپنی انتخابی مہم کے حوالے سے ہونے والے جلسے میں کہی ہیں۔ ان کا خطاب بڑا معنی خیز ہے۔ بظاہر وہ نواز شریف اور ان کے خاندان پر برس رہے ہیں لیکن یہ پورا بیان ان کی اپنے ہی خلاف ایف آئی آر ہے۔ چودھری نثار کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف پارٹی سربراہ بننے کے اہل نہیں تھے۔ تو پھر 34 برس تک وہ انہیں کیوں برداشت کرتے رہے۔ چودھری نثار نے اپنے خطاب میں یہ اعتراف کیا ہے کہ مسلم لیگ ن اور شریف خاندان جو کچھ بھی ہے اس کی ایک ایک اینٹ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے رکھی ہے۔ مسلم لیگ ن اگر سودی نظام کے حق میں ہے تو اس میں سے کون سی اینٹ چودھری نثار نے رکھی تھی۔ شریف خاندان خصوصاً میاں نواز شریف اگر بھارت سے دوستی چاہتے تھے اور اس میں بھارت کے انتہا پسند لیڈر نریندر مودی کو بے جا مراعات دے رہے تھے اور آپ وزیر داخلہ تھے۔ چودھری نثار جب شریف خاندان کا کردار قوم کے سامنے لارہے ہوں تو ان کو یہ بھی سامنے لانا چاہیے کہ وزیر داخلہ کے طور پر انہوں نے شریف خاندان کی کیا کیا مدد کی۔ چونکہ چودھری نثار بھی پی ٹی آئی کی طرح نواز شریف اور ان کی بیٹی کے کردار کی بات کررہے ہیں لہٰذا ان کو محتاط رہنا چاہیے۔ اگر وہ بحیثیت سیاسی رہنما مریم نواز کی کسی غلطی کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں لیکن اگر ان کی مراد وہ ہے جو عام معنوں میں پی ٹی آئی والے کررہے ہیں تو انہیں اس سے باز رہنا چاہیے۔ چودھری صاحب نے شریف خاندان کے بارے میں جتنی باتیں کی ہیں ان سب کا بوجھ انہوں نے اپنے سر خود ہی ڈال لیا ہے۔ حیرت ہے انہیں شریف خاندان کے کردار کو سمجھنے میں 34برس لگے۔ اور دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شریف خاندان کا جو بوجھ چودھری نثار اٹھائے ہوئے تھے، عدالت عظمیٰ، نیب، ایف آئی اے وغیرہ میں سے کسی کو یہ نظر نہیں آیا کہ شریف خاندان اور نواز شریف کی سیاست کی عمارت کن بنیادوں پر کھڑی ہے۔ کس نے ایک ایک اینٹ چوڑی ہے۔34 سال سے جو شخص بوجھ اٹھائے ہوئے تھا اسے عدالت میں بھی اس بوجھ کو اٹھانا چاہیے تھا۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ اگر چودھری نثار کو یہ معلوم تھا کہ نواز شریف پارٹی سربراہ بننے کے اہل نہیں تو انہوں نے اس وقت آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ کس قوت نے انہیں روک رکھا تھا۔ یہ رویہ صرف چودھری نثار کا نہیں ہے ملک کی دیگر جماعتوں میں بھی یہی کچھ ہورہاہے۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانے والے بھی اب اپنی پارٹی اور قیادت کے بارے میں انکشافات کررہے ہیں۔ جو لوگ کل تک بھٹو اور زرداری کے گن گاتے تھے اب وہ زرداری کو گالی قرار دے رہے ہیں۔ جس کو اپنی پارٹی میں ٹکٹ نہیں ملا اس نے دوسری پارٹی کا رخ کرلیا اور ٹکٹ حاصل کرلیا۔ کل تک یہی لوگ اس پارٹی کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ایسے لوگ جس پارٹی میں جائیں گے وہ اس پارٹی میں بھی انتشار پیدا کریں گے اور عملاً ایسا ہی ہورہاہے۔ تحریک انصاف میں تو حد درجہ انتشار ہے۔ یہ صرف اسی لیے ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتخابی کامیابی کے لیے ہر طرح کے لوگوں کو اپنالیتی ہیں اور اپنی پارٹی کے مخلص کارکنوں کو نظر انداز کردیتی ہیں۔ چودھری نثار کیوں برہم ہیں کیا ان کو انتخابی ٹکٹ کے لیے پارٹی صدر کو درخواست دینا برا لگا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پہلے یہ برا کیوں نہیں لگا۔ اسی طرح اگر میاں نواز شریف نے یہ شرط عاید کی تھی کہ ہر امیدوار کو پارٹی سے وفاداری کا حلف نامہ بھرنا ہوگا تو یہ کون سا برا منانے والا عمل ہے۔ ہر پارٹی کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے امیدواروں سے پارٹی کے ساتھ وفاداری کا حلف لے۔ اگر معاملات اتنے مشتبہ ہیں کہ آپ پارٹی سے وفاداری کا حلف نہیں دے سکتے تو ملک سے کیا وفاداری کریں گے۔ اس رویے کی اصلاح ہونی چاہیے۔