زندگی کی رعنائیوں کی شاعرہ 

488

اُردو زبان میں شعر کہنا بظاہر بہت سہل کام محسوس ہوتا ہے۔ مگر اچھا شعر کہنا انتہائی جگر پاش کام ہے۔ اِس دور میں بھی، کہ جب اُردو زبان زبوں حالی کا شکار ہے، اُردو شاعری پھلتی، پھولتی اور پھیلتی جارہی ہے۔ آپ کو اخبارات و جرائد ہی میں نہیں، سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی مرد وزن شعرا کے غول کے غول شعر گوئی کی دھول اُڑاتے نظر آئیں گے۔ مگر اس غولِ بیابانی میں شعر گو زیادہ ہیں اور شاعر کم۔ حقیقی شاعری تجربہ مانگتی ہے۔ قلبِ حسّاس چاہتی ہے۔ ندرتِ افکار سے وجود میں آتی ہے اور ایک نئے طرزِ اظہار کو اختیار کرنے سے مقبولیت پاتی ہے۔
ڈاکٹر عزیزہ انجم کا مجموعہ کلام ’’چاندنی اکیلی ہے‘‘ نظر سے گزرا تو تعجب ہوا کہ ’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے‘۔ زندگی کا کون سا ایسا گوشہ ہے جو اس عزیزہ کے تجربے سے گزر کر شعر میں نہ ڈھل گیا ہو۔ شاعری کی کون سی ایسی صنف ہے، جس میں حسّاس دل رکھنے والی اس شاعرہ نے اپنے افکار کو شعر کی لطیف زبان عطا نہ کر دی ہو۔ ماحول کا ایسا کون سا مسئلہ ہے جس کو ایک نئے اُسلوب اور نئے طرزِ اظہار سے انہوں نے قابلِ توجہ نہ بنا دیا ہو۔ عزیزہ انجم کے ہاں روایت اور ایجاد کا امتزاج نظر آتا ہے۔ جب وہ ربّ ذوالجلال کی حمد کرتی ہیں تو کہتی ہیں:
اُسی کا سب کمال ہے
حیات پُر جمال ہے
وہ اِک حسیں خیال ہے
جسے نہیں زوال ہے
وہ ربِّ ذوالجلال ہے
اور جب اپنے ربِّ ذوالجلال سے دُعا مانگتی ہیں تو دیکھیے کیا مانگتی ہیں:
مجھے اپنا عکسِ جمال دے، مجھے حُسنِ حرف و خیال دے
مجھے وہ ہنر وہ کمال دے کہ زمانہ جس کی مثال دے
نعت میں بھی ان کے اشعار روایت سے ہٹ کر ایک نیا تصور پیش کرتے ہوئے اور ایک دِل نشیں تصویر دکھاتے نظر آتے ہیں:
جب وہ خورشید چمکتا ہوگا
دہر میں کیسا اُجالا ہوگا
عشق بے خود ہوا جاتا ہوگا
اور وہ آداب سکھاتا ہوگا
عزیزہ انجم کا تعلق وطن عزیز کے جس نسلی گروہ سے ہے، اُس نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے تاریخی انقلابات دیکھے۔ ملّتِ اسلامیہ پاکستان کی تاریخ کے صفحات پر بھی اور امت مسلمہ کے وسیع قرطاس پر بھی۔ دلِ دردمند رکھنے والی یہ لڑکی کسی واقعے، کسی سانحے سے اپنے آپ کو بے تعلق نہ رکھ سکی۔ ایک طرف اسے ملت اسلامیہ کے عظیم مجاہد سید قطب شہید ؒ کے منصبِ شہادت پر فائز ہو جانے سے بامقصد زندگی کا ایک نیا حوصلہ اور نیا ولولہ ملتا ہے کہ:
حق کے راہی تِری آواز ہے زندہ اب بھی
جس کو چھیڑا تھا وہی ساز ہے زندہ اب بھی
پھر فضاؤں میں نئے خون کی خوشبو پھیلی
درد والوں کی تگ و تاز ہے زندہ اب بھی
تو دوسری طرف اپنے ہی جگر کے ٹکڑے، اپنے وطن، مشرقی پاکستان میں اپنے بھائی عبدالمالک شہید کی دُشمنانِ پاکستان کے ہاتھوں ہونے والی شہادت اسے آبدیدہ کر دیتی ہے:
’’تختۂ دار محبت کی سزا ہے لوگو‘‘
اور ہم رسمِ محبت کو نبھانے نکلے
رشتۂ جاں سے بھی آگے ہے محبت کا مقام
ساغرِ جاں سے تری بزم سجانے نکلے
ڈاکٹر عزیزہ انجم سے اس عاجز کا تعارف غائبانہ ہے۔ یہ غائبانہ تعارف بھی 1977ء میں ہوا تھا۔ تب عزیزہ انجم غالباً ڈاؤ میڈیکل کالج میں طب کی طالبہ تھیں۔ تعارُف کا ذریعہ صنفِ غزل بنی۔ لیکن ٹھیریے۔ میں اس موقع پر آپ کو اپنے ایک دلی دکھ میں شریک کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ میری عزیز ترین بھتیجی عائشہ سعیدہ صدیقی جو میری عزیز ترین شاگرد بھی تھی، 16 مئی 2017ء کی دوپہر کو دسترخوان پر بیٹھے بیٹھے اچانک رحلت کر گئی۔ خوب اچھی طرح یاد ہے کہ 7؍مارچ 1977ء کو جب وہ اسلامی جمعیت طالبات کے کسی پروگرام سے واپس آئی تو اپنے چچا کو لہک لہک کر دو غزلیں سنائیں۔ یوں پہلی بار غزل کی اِس شاعرہ عزیزہ انجم سے میرا غائبانہ تعارُف ہوا۔ ان دونوں غزلوں سے چند منتخب اشعار:
جدائیاں بھی عجب ہیں، رفاقتیں بھی عجب
ترے بغیر سجیں میری صحبتیں بھی عجب
کٹے گا کس طرح چاہت کی وادیوں کا سفر
یہاں کے لوگ عجب ان کی اُلفتیں بھی عجب
وہ اِک نظر جو بنی ہے خیال کا کانٹا
چبھن بھی اس کی عجب، اس کی راحتیں بھی عجب
طلسمِ خواب کی زنجیر جب کبھی ٹوٹی
لگیں قریب میں بکھری حقیقتیں بھی عجب
۔۔۔۔۔۔
زنجیروں کی بات کرو اب زنجیروں کی بات
نیل گگن پہ ڈوبا سورج، دور تلک ہے رات
سوچ نگر میں اندھیارے اور لوگ خرد کے متوالے
چاک گریباں دیوانو! اب چھیڑو دل کی بات
شہرِ وفا میں منظر ہے یہ سچا بول سنانے کا
کچھ کے ہاتھوں میں زنجیریں، کچھ کے زنجیروں میں ہات
واضح رہے کہ یہ ایک طالبہ کی کہی ہوئی غزلیں ہیں۔ اس کے بعد مختلف رسائل و جرائد میں عزیزہ انجم کی غزلیں پڑھنے کا اتفاق ہوتا رہا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انسان مجموعہِ اضداد یا مجموعہِ تضادات ہے۔ یہ قول ہر فردِ بشر کے بارے میں درست نہیں۔ البتہ ہر فرد کی زندگی متعدد خانوں میں منقسم ہوتی ہے۔مثلاً یہی شاعرہ جو صرف شاعرہ نہیں، ایک طبیبہ بھی ہے، اپنی زندگی میں بیٹی بھی ہے، بہن بھی ہے، بیوی بھی ہے، بہو بھی ہے، ماں بھی ہے، خاندان کے دیگر رشتوں کی زنجیروں میں بھی جکڑی ہوئی ہے اور معاشرے کی ایک فعال اور کارآمد کارکن بھی ہے۔ عزیزہ انجم کی شاعری میں ان تمام حیثیتوں کی جھلک ملتی ہے۔ چناں چہ ایک گھریلو خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حساس شاعرہ ہونے کے ناتے یہ عزیزہ شہر کے حالات سے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتی:
عجب قیامت کا رن پڑا ہے
کہ شہر مقتل بنا ہوا ہے
خبر یہی ہر طرف چلی ہے
جوان تھا، بے گنہ مرا ہے
چلو جنازے میں ہو کے آئیں
یہی تو اب کام رہ گیا ہے
مسرت و شادمانی اور رنج و غم دونوں زندگی کے تلازمات ہیں۔ انھی سے زندگی کی زیبائی بھی ہے اور رعنائی بھی۔اِنَّ مَع العُسر یُسراً فانَّ مع العُسر یُسرا۔ عزیزہ انجم زندگی کی انھی رعنائیوں کی شاعرہ ہے۔ایک ایسی شاعرہ جو دیکھتی ہے، محسوس کرتی ہے اور پھر اپنے تمام احساسات کو شعرکی نرم و نازک اور لطیف زبان بخش دیتی ہے۔