کیا اگلا وزیر اعظم کراچی سے ہوگا؟

397

عام انتخابات 2018 ء میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہے گا۔ملک بھر کے چوٹی کے سیاستدانوں میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔کراچی سے وزیر اعظم کے تین امیدوار اور پارٹی سربراہ بھی میدان میں اتریں گے۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے آخری روز کراچی سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے این اے 243 سے، این اے 250 سے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے اورچیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کے کاغذات نامزدگی این اے 246 لیاری کی نشست کے لیے منظور کرلیے گئے ہیں۔عمران خان،شہباز شریف اور بلاول زرداری اپنی پارٹیوں کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اگلا وزیر اعظم کراچی سے ہو۔عمران خان کے حلقے این اے 243 کی حدودمیں گلشن اقبال، گلستانِ جوہر، مین یونیورسٹی روڈ، میٹروول تھری، بہادر آباد، شرف آباد، پرانی سبزی منڈی، شانتی نگر اور مجاہد کالونی جیسے علاقے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں یہاں سے ایم کیو ایم کے رشید گوڈیل کامیاب ہوئے تھے جواس بار خود پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔ شہباز شریف کے حلقے این اے 250 کی حدود میں سائٹ انڈسٹریل ایریا اور اورنگی ٹاؤن کے مختلف علاقے شامل ہیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے کراچی میں ایک بھی عوامی جلسہ نہیں کیا ۔اور نہ ہی شہباز شریف نے کراچی آکر یہاں کے عوام کے مسائل معلوم کیے ہیں ۔ان کے کاغذات نامزدگی بھی پنجاب کے سابق وزیر رانا مشہود نے جمع کروائے ہیں۔بلاول زرداری اپنے روایتی گڑھ لیاری سے میدان میں اترے ہیں ۔ماضی میں اس حلقے سے بلاول کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو اور ان کے والد آصف زرداری بھی کامیاب ہوچکے ہیں۔اس بار اس حلقے سے بلاول کو سیٹ پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملے گی کیو نکہ پی پی حکومت کے ہوتے ہوئے لیاری میں مبینہ پولیس مقابلوں میں نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل، درجنوں افراد کے لا پتا ہونے ،پانی کی قلت سمیت بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث لیاری کے عوام پی پی کی قیادت سے نالاں ہیں۔ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار ،جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی،پی ٹی آئی کے عارف علوی پی ایس پی کے مصطفی کمال اور سول سوسائٹی کے خلیل جبران این اے 247 سے الیکشن لڑیں گے۔اس حلقے کا انتخاب دیکھنے سے تعلق رکھے گا کیونکہ تمام نامورامیدوار اسی حلقے سے مد مقابل ہیں۔قومی اسمبلی کے اس حلقے میں ڈیفنس، کلفٹن، برنس روڈ، صدر، کراچی کینٹ، سول لائنز، کھارادر، لائٹ ہاؤس، کالا پل اور گورا قبرستان کے علاقے آتے ہیں۔ شناختی کارڈ کا مسئلہ حل کروانے، کے الیکٹرک کی من مانیوں،لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت کے خلاف عدلیہ میں جانے اور عملی طور پر میدان میں آکر احتجاج کرنے کے باعث جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم کو عوامی تائید حاصل ہے اور انھیں بڑی تعداد میں ووٹ پڑنے کے امکانات ہیں۔مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم کے جبر کے خاتمے اور ٹوٹ پھوٹ کے باعث جماعت اسلامی کراچی کے الیکشن میں اپ سیٹ کرسکتی ہے۔ ایم کیو ایم پی آئی بی اور ایم کیو ایم بہادر آباد میں ایکا کے بعد ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے 60 سے زائد امیدوار انتخابی اکھاڑے میں اتریں گے جن میں خواجہ اظہار الحسن، فیصل سبزواری،نسرین جلیل،عامر خان،علی رضا عابدی نمایاں ہیں۔ماضی میں کراچی کی بیشتر سیٹیں ایم کیو ایم جیتتی چلی آئی ہے اور اس کا ووٹ بینک شہر کا سب سے بڑا ووٹ بینک تھا ،مگر یہ کس طرح الیکشن میں کامیابی حاصل کرتے تھے یہ کراچی کا ہر شہری جانتا ہے۔ کراچی اس بار یوں بھی عام انتخابات میں دنیا بھر کی توجہ کا مرکزہوگا کہ کراچی کے شہری ایم کیو ایم کے 30 سالہ جبر اور ٹھپا مافیا سے نجات ملنے پر پہلی بار آزادانہ ووٹ کاسٹ کریں گے۔