نگران وزیر اعظم کے اثاثے

391

نگران وزیر اعظم ریٹائرڈ چیف جسٹس ناصر الملک بھی اندرون و بیرون ملک بے تحاشا جائداد اور کروڑوں روپے نقد کے مالک نکلے۔ امید کی جانی چاہیے کہ یہ سب کچھ ان کی محنت اور حلال کی کمائی ہوگی۔ایسا ہی دعویٰ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کا ہے۔ آصف علی زرداری بھی ایک اوسط درجے کے شخص حاکم علی زرداری کی اولاد ہونے کے باوجود اس وقت کھرب پتی ہیں اور ان کا بیٹا اور بہنیں بھی بے حساب دولت کی مالک ہیں۔ انہوں نے بھی یہ سب کچھ شاید اپنی محنت سے حاصل کیا ہو۔ لیکن بظاہر تو آصف علی زرداری کوئی کام کرتے ہوئے نظر نہیں آتے تاہم جو کام کرتے ہیں وہ سب کی نظر میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق ناصرالملک سنگا پور اور برطانیہ میں کروڑوں کی املاک رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں 3پلاٹ، ڈپلومیٹ انکلیو میں اپارٹمنٹ، سوات میں 45دکانیں، فلور مل، سی این جی اسٹیشنز میں شیئرز اور 10کروڑ روپے کے بینک بیلنس کے مالک ہیں۔ یہ تفصیلات الیکشن کمیشن نے جاری کی ہیں ۔ چیف جسٹس کی تنخواہ یقیناًاتنی ہوتی ہوگی کہ اتنی بڑی جائداد بنائی جاسکے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ دیگر سابق چیف جسٹسوں کے پاس کیا کچھ ہوگا۔ شاید یہ اہل پاکستان کے لیے باعث فخر ہو کہ ان کا نگران وزیر اعظم بھی ارب پتی ہے۔ لیکن پھر سابق وزیر اعظم کا کیا قصور۔ کیا یہ کہ ان کے اثاثے کسی سابق چیف جسٹس سے زیادہ ہیں۔ ہمارے نگران وزیر اعظم کے اثاثوں کی فہرست میں شوگر ملیں نہیں ہیں جوشریف خاندان اور زرداری کے پاس ہیں۔ زرداری کے سابق دوست ذوالفقار مرزا تو چیختے پھرتے ہیں کہ زرداری نے ان کی کئی شوگر ملوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ذوالفقار مرزا کے پاس شوگر ملیں اور جائداد کہاں سے آئیں وہ تو ملک کے صدر بھی نہیں رہے۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ حق حلال کی کمائی سے کوئی ارب پتی، کھرب پتی نہیں بن سکتا۔ کسی سرکاری ملازم کی تنخواہ خواہ کتنی ہی ہو وہ چند لاکھ یا زیادہ سے زیادہ دو ایک کروڑ جمع کرسکتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں کہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر قیمتی املاک، درجنوں دکانیں، مکانات اور تعیشات کا مالک ہو۔ ایسا تو دیگر ذرائع ہی سے ممکن ہے۔ نگران و زیر اعظم جناب ناصر الملک کی بطور جج شہرت اچھی اور دامن بے داغ ہے چنانچہ یہی توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے پاس جو کچھ ہے اس کا ذریعہ حلال کی کمائی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ دو ایک دن میں خود اس کی وضاحت کردیں کہ اتنی بڑی جائداد کیسے بنالی۔ لیکن کسی ارب پتی اور کھرب پتی جج کی عدالت میں نوازشریف، آصف زرداری، ٹپی اور شرجیل میمن جیسے لوگوں کے مقدمات لگے تو فیصلہ کیا ہوگا؟ ہمارے حکمران غیر ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں لیکن اکثر یہ جواب ملتا ہے کہ پہلے خود تو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرلو اور بیرون ملک بینکوں میں رکھے ہوئے اپنے اربوں ڈالر اور پاؤنڈ ملک میں لے آؤ۔ لیکن اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر ایسا کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ہمارے محترم نگران وزیر اعظم کی اہلیہ کے نام پر بھی سنگاپور اور لندن میں جائدادیں ہیں۔ بیوی، بچوں کے نام پر بیرون ملک جائداد رکھنے میں بڑی بچت ہوتی ہے۔ نوازشریف نے بھی یہی کیا ہے۔ ناصر الملک کے نام پر سوات اور پشاور میں جو جائداد اور اراضی ہے وہ سب گفٹ یا تحفے میں ملی ہیں ۔ ایک چیف جسٹس کو یہ تحفے کس نے دیے ؟ پشاور کی اراضی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ تو والد نے گفٹ کردی تھی۔ لندن میں اہلیہ کی جائداد کی مالیت 8لاکھ 50ہزار 272پاؤنڈ ہے۔ یہ شاید ناصر الملک نے گفٹ کی ہوگی ۔ جن کی ہونڈا سوک کی مالیت صرف 10لاکھ روپے اور ٹویوٹا 2012ء کی کار 48لاکھ روپے مالیت کی ہے شاید یہ بھی کسی نے گفٹ کی ہوں۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ حسن عسکری کے پاس کچھ زیادہ اثاثے نہیں ہیں بس 70لاکھ مالیت کا گھر، 9لاکھ 30ہزار روپے نقد اور پرائز بانڈ کے علاوہ ایک کروڑ روپے کا بینک بیلنس ہے۔ وہ ایک صحافی اور پروفیسر ہیں ۔ ان کے پاس یہی کچھ ہوسکتا ہے۔ دیگر نگران وزرائے اعلیٰ اور وزراء نے اپنے اثاثوں کی فہرست نہیں دی۔ ممکن ہے ابھی گن رہے ہوں۔ لیکن ارب پتی نگران وزیر اعظم کیا مختصر مدت میں پاکستان اور پاکستانیوں کے دکھوں کامداوا کرسکیں گے؟