قوم کے یہ رہنما

358

انتخابات سے پہلے ہمارے قومی رہنماؤں اور عوام کے خادموں کے پردے فاش ہوگئے ہیں ۔ بہت کچھ معلوم تو پہلے بھی تھا مگراب الیکشن کمیشن میں ظاہر کیے گئے اثاثوں سے خود ان رہنماؤں نے تصدیق کر دی ہے ۔ اب بھی ممکن ہے کہ بہت کچھ چھپا لیا گیا ہو جیسے آصف علی زرداری نے اپنے اثاثوں میں سوئٹزر لینڈ کے بینک میں پڑے ہوئے 60 لاکھ ڈالر ظاہرنہیں کیے جب کہ ان کے بارے میں خود سوئس عدالت پاکستان کو واپس کرنے کا حکم دے چکی ہے ۔ اسی طرح ان کے بر خور دار اور پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر نشین بلاول نے اپنے اثاثوں میں اپنی والدہ سے ملنے والی دوجائدادیں ظاہر کی ہیں جو محترمہ بے نظیر نے خود کہیں ظاہر نہیں کیں ۔ سب سے اہم معاملہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کی بیٹی مریم صفدر کا ہے جنہوں نے بڑے طمطراق سے دعویٰ کیا تھا کہ بیرونی ممالک میں تو کیا پاکستان میں بھی ان کی جائداد نہیں ہے ۔ لیکن اب اربوں روپے کی جائداد نکل آئی ہے اور گزشتہ3 سال میں اس میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔ ان سیاسی رہنماؤں کے دعوے یہ ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کریں گے اور ان کے مسائل حل کریں گے ۔ لیکن اربوں اور کھربوں کی جائداد رکھنے والوں اور پر تعیش زندگی گزارنے والوں کو ملک کے98فیصد غریب عوام کے دکھ درد کا اندازہ کیسے ہو سکتا ہے۔محاورے کے مطابق منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والوں کو کیا معلوم کہ غریبوں کے دن کیسے کٹتے ہیں ۔ یہ سب اول درجے کے منافق اور لٹیرے ہیں ۔ ان کے جو اثاثے سامنے آئے ہیں انہیں دیکھ کر آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ عمران خان نے اقتدارملنے کی شرط پر ایک کروڑ نوکریاں دینے کا لالچ دیا تھا اس کے جواب میں آصف علی زرداری نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر گھر کے ایک فرد کو سرکاری نوکری دیں گے ۔ یہ تعداد ساڑھے تین کروڑ بنتی ہے ۔ ممکن ہے کہ آصف زرداری یہ وضاحت کرنا بھول گئے ہوں کہ یہ گھر ان کے اپنے عزیز ، رشتے داروں ، بہنوں ، بہنوئیوں، ان کی اولاد اپنے فرنٹ مین گھرانوں کے لیے ہوں گے کیونکہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو ابھی ارب پتی نہیں بن سکے ۔ اثاثوں کی تفصیلات تو سامنے آ ہی چکی ہیں اور ان میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ بلاول زرداری کے نام پر جو بلاول ہاؤس ہے اس کی قیمت 30 لاکھ روپے ظاہر کی گئی ہے ۔ اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر پیپلز پارٹی کے کسی معقول شخص نے بھی نہیں سمجھایا ۔ کراچی کی ایک مہاجر بستی سعود آباد میں 80 گز کے مکانوں کی قیمت ایک کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے اور کم سے کم قیمت 50 لاکھ روپے ہے جب کہ وہاں عالم یہ ہے کہ پانی تو نا پید ہے ہی دنمیں تین دفعہ تین تین گھنٹے کے لیے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے مگر پھر بھی مکانوں کی قیمت بلاول ہاؤس سے زیادہ ہے ۔ بلاول کے والد آصف زرداری کے پاس 6 بلٹ پروف گاڑیاں ہیں کیونکہ ان جیسے خادم عوام کا گزارا ایک ، دو گاڑیوں سے نہیں ہوتا ۔ ان چھ میں سے تین گاڑیاں ان کو بطور صدر غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے ملی تھیں ۔ صدر ، وزیر اعظم کو تحفے میں ملنے والی ہر شے ریاست اور قوم کی ملکیت ہوتی ہے لیکن اہم ترین عہدوں پر برا جمان افراد کی ہوس کبھی پوری نہیں ہوتی چنانچہ ایک قانون کا فائدہ اٹھا کر 15 فیصد رقم ادا کر کے ہر چیز اپنے نام کر لی جاتی ہے ۔ اب یہ سوال کیا کرنا کہ جب آصف زرداری کے پاس تین بلٹ پروف گاڑیاں ہیں تو مزید تین گاڑیاں رکھنا عیاشی نہیں تو اور کیا ہے۔ غریب قوم کے عیاش رہنما غریبوں کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا صدر نشین بلاول ارب پتی تو ہے لیکن اس بے چارے کے پاس ایک گاڑی تک نہیں شاید بس میں سفر کرتے ہوں یا پیدل ہوں ۔ ان کے والد کو چاہیے کہ ایک بلٹ پروف گاڑی ان کو دیدیں ۔ خود آصف زرداری نے اپنے جو اثاثے ظاہر کیے ہیں ان کے مطابق ان کے پاس 349 ایکڑ زرعی اراضی ہے ۔ دبئی میں جائداد ہے ،75 کروڑ 86 لاکھ روپے نقد ہیں۔ زرداری کو مویشی پالنے کا شوق عرصے سے ہے ۔ جب وہ اپنی اہلیہ کے دور حکومت میں بطوروزیر ان کے ساتھ تھے تب بھی گھوڑوں پر خصوصی توجہ تھی اور جب صدر بن گئے تو ایوان صدر کو اصطبل بنا دیا ۔ اطلاعات تھیں کہ ان کے گھوڑے قیمتی مربے کھاتے ہیں ۔ بکریاں اور اونٹ بھی پالے ہوئے تھے ۔ا ب بھی ان کے پاس جو مویشی ہیں ان کی مالیت9 کروڑ روپے ہے ۔ لگژری گاڑیوں اور مویشیوں کے علاوہ انہیں اسلحہ جمع کرنے کا شوق بھی لا حق ہے ۔ چنانچہ ان کے پاس سوا کروڑ روپے کا اسلحہ ہے ۔ جانے وہ کروڑوں کے اسلحے سے کونسی جنگ لڑنے جار ہے ہیں ۔ مریم نواز کے پاس وسیع اراضی ،کروڑوں نقد کے علاوہ 10فیکٹریوں میں حصہ داری ہے اور کہتی یہ تھیں کہ ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ ان کے اثاثوں کی کل مالیت 84 کروڑ 50 لاکھ ہے جس میں زیورات شامل نہیں ۔ لیکن آصف زرداری کے اثاثے 75 ارب روپے سے اوپر ہیں ۔عوام کے خدمت گار اور تبدیلی لا کر نیا پاکستان بنانے کے دعویدار عمران خان کے پاس صرف 3 ارب 80 کروڑ کے اثاثے ہیں گاڑی ان کے پاس بھی نہیں ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔ ایک سوال جس کا کبھی جواب نہیں ملا کہ اوسط درجے کی آمدنی والے حاکم علی زرداری کا بیٹاکھرب پتی کیسے ہو گیا؟ بظاہر کوئی کاروبار بھی نہیں کیا ۔ لندن میں سرے محل اور فرانس میں ایک سابق ملکہ کا محل یا ولاان کی ملکیت تھا ۔ حاکم علی زرداری کے اثاثے اور آمدن کیا تھی ، یہ معلوم کرنا ہو تو الیکشن کمیشن کے ریکارڈ سے مدد لی جا سکتی ہے جب حاکم علی نے پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑتے ہوئے اپنے اثاثے ظاہر کیے تھے ۔ خود ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے بمبینو سینما میں ان کا دو آنے کا حصہ ہے جس سے دو گھر چلانے مشکل ہیں ۔ لیکن جہاں بہت سا ریکارڈ غائب ہو گیا ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ ریکارڑ بھی غائب کر دیا گیا ہو ۔ لیکن کیا یہ ارب پتی ، کھرب پتی لوگ بر سر اقتدار آ کر عوام کی خدمت کریں گے یا اپنے اثاثوں میں مزید اضافہ کریں گے کہ ہوس کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی سے بھرتا ہے ۔ اور انسان کو جب قبر میں اتارا جاتا ہے تو اس کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں اور کفن میں کوئی جیب بھی نہیں ہوتی ۔مگر کیا عوام غاصبوں ،لٹیروں اور مستند دھوکے بازوں کے مقابلے میں ان درویشوں کو منتخب کریں گے جن کے دامن کرپشن سے پاک ہیں؟