بھارت کے ہاتھ سے پھسلتی وادی

312

مقبوضہ کشمیر میں محبوبہ مفتی اور بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت تیسرے سال ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کے گورنر این این وہرہ نے بھارتی صدر رام ناتھ گوئند کو گورنر راج کی تجویز پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔ بھارتیا جنتا پارٹی نے دہلی ہی میں پی ڈی پی کی حمایت سے دست کش ہونے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد محبوبہ مفتی ایوان میں اپنی اکثریت کھوبیٹھیں اور یوں انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ بھارتیا جنتا پارٹی نے پی ڈی پی کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے کی کئی وجوہ بیان کیں جن میں ایک اہم وجہ وادی کشمیر کے معروف اور بااثر صحافی شجاعت بخاری کے قتل کو بھی بتایا گیا۔
تین برس قبل نریندر مودی کی سرپرستی میں مقبوضہ کشمیر کی بھارتیا جنتا پارٹی نے طوفانی انداز میں اپنی مہم کا آغاز کیا اور اس مہم کو مشن44+ کا نام دیا گیا یعنی بھارتیا جنتا پارٹی کو انتخابات میں چوالیس سے زیادہ نشستیں جیتنا ہیں تاکہ وہ تنہا حکومت سازی کی پوزیشن میں آجائے۔ اس مہم کی کامیابی کے لیے پیسہ اور وسائل پانی کی طرح بہائے گئے۔ میڈیا کا بھرپور استعمال کرکے ایک فضاء بنانے کی کوشش کی گئی۔ بھارتیا جنتا پارٹی کی یہ مہم جموں میں تو اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہوئی اور وہاں ہندو آبادی نے کلی طور پر اپنا وزن بھارتیا جنتا پارٹی کے پلڑے میں ڈالا مگر کشمیر وادی میں اس مہم کا ردعمل ظاہر ہونے لگا۔ یہاں بی جے پی کے لیے قدم رکھنا کاردارد رہا اور اس کے برعکس وادی کی ان روایتی جماعتوں کو عوام میں کچھ نہ کچھ پزیرائی حاصل ہوئی جو کشمیر کو متنازع قرار دیتی ہیں اور اس کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ پی ڈی پی چوں کہ ماضی میں حریت پسند گروپوں کے ساتھ مراسم اور سیلف گورننس جیسے نعروں کے حوالے سے پہچانی جاتی تھی، وہ گاہے گاہے سبز لباس پہن کر پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا تاثر بھی دیتی رہی ہیں۔ اس لیے محبوبہ مفتی کی جماعت کو اسمبلی انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی۔ 89کے ایوان میں پی ڈی پی نے اٹھائیس، بی جے پی نے پچیس، نیشنل کانفرنس نے انیس اور کانگریس نے بارہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بھارتیا جنتا پارٹی جموں کی اور پی ڈی پی وادی کشمیر کے مینڈیٹ کے ساتھ سامنے آئیں۔ اس طرح کچھ عرصہ جوڑ توڑ جاری رہنے اور حجابوں اور ہچکچاہٹوں کے بعد پی ڈی پی اور بھاجپا مخلوط حکومت بنانے پر متفق ہوئیں۔ وادی میں اس اتحادی حکومت کو اسلامی اور کشمیری تشخص پر کھلا وار سمجھا گیا کیوں کہ بی جے پی نے کشمیر کے اسلامی تشخص اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے ارادوں کو کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی خوف نے وادی میں ردعمل اور نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیے رکھا جس نے دہلی کو کشمیر کے حوالے سے لمحہ بھر کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔
حکومت قائم ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ وادی کے نوجوان اور مقبول پوسٹر بوائے برھان وانی شہید کر دیے گئے جس کے بعد وادی کشمیر بھارت کے ہاتھ سے مچھلی کی طرح پھسلتی چلی گئی۔ احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور بھارت نے اس کا حل طاقت کے استعمال میں تلاش کرنے کا راستہ اختیار کیا اور یوں وادی کشمیر میں ظلم کی وہ داستانیں رقم ہوئیں کہ خود بھارت کا آزاد ضمیر بھی چیخ اُٹھا۔ نریندر مودی حکومت نے کشمیریوں کو چھڑی دکھاتے ہوئے اسی ارب روپے کا اقتصادی پیکیج بھی دیا مگر کشمیریوں نے اس ترغیب کو قلندرانہ ادا سے ٹھکرا دیا اور ان کے ایک لیڈر نے کہا کہ اگر بھارت ہماری سڑکوں پر سونے کے تار بھی بچھا دے تو ہم مطالب�ۂ آزادی سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ پیلٹ گن کا بے رحمی سے استعمال کشمیریوں کو بے نور کرتا رہا ان کے قبرستان تنگ پڑتے گئے مگر دہلی میں ان کی آواز کو سننے اور اس پر ہمدردانہ انداز میں غور کرنے کی سوچ پیدا نہ ہو سکی۔ مجروح دل کشمیریوں کو پاکستانی ایجنٹ اور دہشت گرد قرار دے کر مزید زخمی کیا جاتا رہا۔ کشمیر پر کنٹرول حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ محبوبہ مفتی چوں کہ وادی کے جذبات کو سمجھتی تھیں اور ان کا اور برھان وانی کا آبائی علاقہ جنوبی کشمیر تھا اور یہی وہ حصہ تھا جو تین سال کسی کھولتے ہوئے پانی کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے اس لیے وہ بھارتی حکمرانوں کو طاقت کے استعمال کی پالیسی میں نرمی لانے اور حریت اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کر تیں رہیں مگر جموں سے اکثریت لینے والی بی جے پی اس پالیسی کو اپنی سیاسی موت سمجھ کر مودی حکومت کو مزید سخت گیری اختیار کرنے پر مجبور کرتی رہی یوں دونوں کے درمیان معاملات پھنس کر رہ گئے تھے۔ ناکامیوں کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر دونوں جماعتیں اپنے راستے جدا کرنے کو بے قرار تھیں مگر پہل کون کرے گا؟ سوئی یہیں اٹک کر رہ گئی تھی۔ بے جے پی نے پہل کر کے محبوبہ حکومت کی حمایت سے دست کش ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے شجاعت بخاری کے قتل کو مضبوط جواز بنایا۔ جس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ کہیں شجاعت بخاری اس داخلی اور سیاسی کشمکش کا شکار تو نہیں ہوئے۔ حکومت سے علیحدگی کے جواز کے لیے ان کا قتل ناگزیر قرار پایا؟۔
مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج کی کہانی بہت پرانی ہے۔ پہلا گورنر راج شیخ محمد عبداللہ حکومت کے خلاف اس وقت لگا جب 1977 میں کانگریس نے ان کی حمایت واپس لی۔ اس کے بعد دوسرا گورنر راج 1986 میں انہی کے داماد جی ایم شاہ کی حکومت کے خاتمے اور تیسرا گورنر راج 1990 میں شیخ عبداللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ حکومت کے خاتمے پر لگا۔ اب ایک بار پھر گورنر راج کا نفاذ کرکے بھارتی حکومت نے فیصلہ سازی کے نمائشی اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں اور اس کے بعد وادی میں جبر وتشدد کی ایک نئی لہر پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہے۔