یہ سیاسی نہیں، سماجی مسئلہ ہے!

1386

ابھی چند روز پہلے کی بات ہے۔ مسجد سے باہر نکلتے ہوئے ایک سفید ریش بزرگ نے دوسرے سفید ریش بزرگ کا کندھا تھپتھپاکر کہا: ’’انتخابات آرہے ہیں، اپنے ووٹ کا استعمال ذرا سوچ سمجھ کر کرنا‘‘۔
دوسرے سفید ریش بزرگ نے پہلے سفید ریش بزرگ کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے جواب دیا:
’’بھائی مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ سیاسی مسئلہ ہے، کوئی اور بات کرو‘‘۔
یہ مکالمات سن کر ایک تیسرے سفید ریش بزرگ کا ناریل چٹخ گیا۔ وہ اپنے ناریل (یعنی اپنے سفید سر عزیز) پر اپنا دستِ مبارک پھیرتے ہوئے، پلٹ کر پیچھے کو پھرے اور چمک کر بولے:
’’جنابِ من! یہ سیاسی مسئلہ نہیں، سماجی مسئلہ ہے۔ اِسی رویّے نے تو ہمارا آوے کا آوا بگاڑ کر رکھ دیا ہے‘‘۔
یہ تیسرے بزرگ ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی تھے۔ کہنے لگے:
’’ہمارے قومی منظر نامے کا یہی ایک گوشہ ایسا ہے جس کی طرف ہمارے کسی مصلحِ دین و ملک و قوم و سیاست نے تادمِ تقریر کوئی توجہ نہیں کی۔ اجتماعی ’رائے دہی‘ کے متعلق لوگوں کی کوئی تربیت نہیں کی‘‘۔
دوسرے بزرگ بھڑک اُٹھے:
’’اس کا دین سے کیا تعلق؟ بھلا کسی مصلحِ دین کو ’ووٹنگ‘ کی مارا ماری کی طرف توجہ کرنے کی کیا مار آئی ہوئی ہے؟‘‘
چچا نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا اور پوچھا:
’’مصلحِ دین کاہے کی اصلاح کرتا ہے بھائی؟ وہ لوگوں کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل کو دین کا تابع بنانے ہی کی کوشش کرتا ہے نا؟ لوگوں کو اپنی دُنیاوی زندگی دینی احکام کے مطابق بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے نا؟ کیا ہماری زندگی کا کوئی کام ایسا بھی ہے جس کے متعلق ہمارے دین کا کوئی حکم اور کوئی ہدایت موجود نہ ہو؟‘‘
یہ مکالمات سن کر اور یہ ’مچیٹا‘ دیکھ کر اب اور لوگ بھی رُک گئے تھے۔ ایک طرح کا مجمع سا لگ گیا تھا۔ چچا نے موقع اور مجمع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ حضرات کے پاس سوچنے، سمجھنے اور فکر وتدبر کرنے کے لیے کچھ وقت ہو تو میں ایک چھوٹا سا قصہ سناؤں؟‘‘
چچا کے سنائے ہوئے قصے بڑے مزیدار ہوتے ہیں۔ سب لوگ ہمہ تن گوش ہوگئے۔ چچا نے وہی قصہ سُنانا شروع کردیا جو وہ اس سے پہلے وہ کئی بار ہمیں سنا چکے تھے۔ آج آپ بھی سن لیجیے۔ چچا کہنے لگے:
سنو! یہ نوے کی دہائی کا واقعہ ہے۔ ایک جماعت نے ایک جید عالم دین کو الیکشن میں کھڑا کردیا۔ میں تو کہتا ہوں کہ بڑی زیادتی کی اُن کے ساتھ۔ خدمتِ دین ہی میں نہیں اُن کا شہرہ خدمتِ خلق میں بھی بہت دُور دُور تک پھیلا ہوا تھا۔ معتقدین بھی اطراف وجوانب میں پھیلے ہوئے تھے۔ مصلحِ معاشرہ تھے، خادمِ خلق تھے، قومی و ملی و سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے، مگر الیکشن ولیکشن اُن کے بس کی بات نہ تھی۔ کیوں؟ کیوں کہ۔۔۔ ’وہ سچی بات سرِ عام کرتے پھرتے تھے‘۔
ایک روز ہم سب اُنہیں ساتھ لے کر ایک گاؤں میں ’ووٹ ہموار کرنے‘ گئے۔ مولانا کی آمد کی خبر گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ جوق در جوق اُمڈ آئے۔ گاؤں کا چودھری بھی بھاگا بھاگا آیا۔ مولانا کی قدم بوسی کرکے اُن سے اپنے ڈیرے پر چلنے کی درخواست کی۔ مولانا کی آمد کی خبر سن کر اُس کے ڈیرے پر ایک جم غفیر جمع ہوگیا۔
اے صاحبو! ہم گاؤں دیہات والوں کا قاعدہ ہے کہ جب کوئی عقد منعقد ہوجائے یعنی کوئی معاہدہ طے پاجائے تو اُس کی توثیق کی علامت کے طور پر آخر میں ’دُعائے خیر‘ ضرورکرتے ہیں۔ چناں چہ جب مولانا اور اُن کے مصاحبوں کی چائے پانی سے ضیافت ہو چکی تو ایک کارکن نے بڑے جوش سے اُٹھ کر تجویز پیش کی:
’’آئیے اب دُعائے خیر کرلیں!‘‘
صرف دُعا کرنے کی بات کی گئی ہوتی تو شاید کرلی گئی ہوتی۔ مگر ’دُعائے خیر‘ تو باقاعدہ ایک اصطلاح ہے۔ لہٰذا میزبانوں میں سے ایک نے چونک کر پوچھا:
’’دُعائے خیرکس بات کی؟‘‘
ہمارے کارکن نے جواب دیا کہ:
’’بھئی دعائے خیر اِس بات کی کہ آپ لوگوں نے مولانا کا اتنا شاندار استقبال کرکے ثابت کردیا ہے کہ پورا گاؤں مولاناکی امانت و دیانت پر اعتماد کرتا ہے ، ان کو اپنی امانتوں کا اہل سمجھتا ہے اور اپنے اعتماد کا ووٹ مولانا ہی کو دے گا‘‘۔
اُس شخص نے بڑی بے مروتی سے کہا:
’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ پورا گاؤں مولانا ہی کو ووٹ دے گا؟‘‘
ہمارے کارکن کی ’رگِ کنویسنگ‘ پھڑک اُٹھی۔ اُس نے مولانا کی خدمات اور صفات پر اپنی رٹی رٹائی تقریر شروع کردی۔ مگر گاؤں کے چودھری نے اپنے ہاتھ کے اِشارے سے اُس کا منہ بند کیا اور کہنے لگا:
’’تم تو جمعہ جمعہ آٹھ دِن کی پیدائش ہو۔ تم ہمیں کیا بتاتے ہو؟ ہمارے تو بزرگ بھی مولانا کے معتقد تھے۔ ہم اپنے بچپن سے ان کی جوتیاں سیدھی کرتے آئے ہیں۔ ہر دینیتقریب میں ان کو بلایا جاتا ہے۔ ہر مصیبت اور مشکل کی گھڑی میں مولانا کی خدمات سے فیض اُٹھایا جاتا ہے‘‘۔
ہمارے کارکن نے حیرت سے پوچھا:
’’پھر آپ لوگ انہیں ووٹ کیوں نہیں دیں گے؟‘‘
اِس پرگاؤں کے ایک اور شخص نے اُٹھ کر ہمارے کارکن سے پوچھا:
’’میاں! یہ بتاؤ کہ اگر ہمارے گاؤں کا کوئی گبھرو جوان برابر والے گاؤں سے کوئی لڑکی بھگا لائے۔ اُس کے خلاف پرچہ کٹ جائے۔ پولیس آئے اور اُس کو پکڑ کرلے جائے۔ تو کیا مولانا ہمارے معتمد اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے جاکر اُسے تھانے سے چھڑا لائیں گے؟‘‘
یہ سوال سنتے ہی مولانا کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اُس کارکن کے بجائے وہ خود غصے سے بول اُٹھے:
’’چھڑا لائیں گے کیا معنی؟‘‘
یہ کہہ کر اُس شخص کی طرف بھنویں اُچکا کر دیکھا اور پھر مولانا کی گرج دار آواز گونجی:
’’ہم تو ایسے بدکردار شخص کو عبرتناک سزا دِلوائیں گے‘‘۔
یہ سن کر وہی شخص مسکرا کر فاتحانہ لہجے میں بولا:
’’سن لیا جی آپ نے؟ بس اِسی لیے ہم مولانا کو ووٹ نہیں دیں گے‘‘۔
ہماری مسجد کے باہر کھڑے بزرگوں پر سناٹا طاری ہوگیا۔ چچا چودھر چراغ دین نے اِس سناٹے سے بھی فائدہ اُٹھایا اور مسکرا کر بڑے فاتحانہ لہجہ میں فرمایا:
’’سُنیے ۔۔۔ جَوَامِعُ الْکِلَم ۔۔۔ یعنی رسول اللہ ؐ کے ارشاد فرمائے ہوئے جامع کلمات میں سے ایک کلمہ آپ کو سُناتا ہوں۔ فرمایا: ’’اَعْمَالُکُمْ۔۔۔۔۔۔ عُمَّالُکُمْ‘‘ یعنی تُمہارے اعمال ہی تُمہارے عُمّال ہیں (او کما قال) بہ الفاظِ دیگر جس طرح کے ہمارے اعمال ہوں گے اُسی طرح کے ہمارے عُمال (یا صاحبانِ اختیار) ہوں گے۔ یعنی جیسی روح ویسے فرشتے۔ اب تک جیسے ہم تھے ویسے لوگ ہم پر اب تک مسلط رہے، اور جب تک ہم ایسے رہیں گے تب تک ہم پر ایسے ہی لوگ مسلط ہوتے رہیں گے۔ سو، اپنی حالت بدلنے کے لیے ہمیں اپنا طرزِ فکر اور طرزِ عمل دونوں بدلنا پڑے گا‘‘۔