صحرا کی تپتی ریت پر زندگی کو تلاش کرتے کرتے وہ بالآخر موت کی آغوش میں سو گئیں۔ تین بچیاں جو جنوبی پنجاب سے روزی روٹی کی تلاش میں والدین کے ساتھ فورٹ عباس کے شدید گرمی کے علاقے میں آئی ہوئی تھیں۔ ستائیسویں شب وہ اپنی پھپھو کے گھر سے واپس آنے کے لیے نکلیں راستہ کوئی لمبا نہیں تھا لیکن 97 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفان نے انہیں راستے سے بھٹکا دیا۔ پھپھو کو اطمینان تھا کہ قریب ہی تو گھر ہے پہنچ گئی ہوں گی اور والدین مطمئن تھے کہ پھپھو کے گھر ہوں گی۔ صبح جب معاملہ کھلا تو والدین پاگلوں کی طرح اپنی بچیاں ڈھونڈتے رہے۔ علاقے کے لوگوں نے موٹر سائیکلوں اور ٹریکٹروں پر ڈھونڈنے میں مدد کی۔ لیکن ناکام رہے۔
واقعہ کے وقت سے تیسرے دن تک پولیس اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ تیسرے دن جا کر رینجرز اور دوسرے ادارے حرکت میں آئے تو تینوں بہنوں کی لاشیں صحرا سے مل گئیں۔ تینوں بہنوں نے مرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے تھے۔ یہ چاند رات تھی لیکن غریب ہاری کے لیے قیامت کی رات تھی۔ کاش ریسکیو کا یہ کام پہلی صبح ہی شروع کردیا جاتا تو شاید ننھی کلیاں یوں صحرا کی ریت کی نذر نہیں ہوتیں۔ ہمارے ہاں دور دراز کے دیہات میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار دیتے ہیں نہ انہیں حکومت سے کوئی توقع ہوتی ہے اور نہ ہی وہ حکومت سے اس سلسلے میں کوئی مطالبہ رکھتے ہیں۔ انہیں تو اپنی روزی روٹی کے سلسلے ہی میں اتنی دشواریاں لاحق ہوتی ہیں کہ پورے پورے خاندانوں کے ساتھ علاقے میں مزدوری حاصل کرنے کے لیے طویل فاصلے طے کرتے ہیں جیسے کہ یہ غریب ہاری کا خاندان تھا۔
دنیا کی خبروں پر نظر ڈالیں تو کبھی حکومتوں کے ادارے بچی کو راکھ سے گھرے گھر سے نکال رہے ہیں، کبھی برف میں پھنسے ہرن کی مدد کررہے ہیں اور اسے بحفاظت نکال کر لاتے ہیں۔ کبھی جھیل میں پھنسے کتے کی جان بچاتے ہیں۔ یعنی انسانوں کے علاوہ جانوروں کے لیے بھی اُن کی حکومتیں فوری طور پر ایکشن لیتی ہیں۔ میں نے سوچا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ہمارے ہاں تو غریبوں کے لیے حکومت کے پاس نہ وقت ہوتا ہے نہ وسائل۔ عوام کے خادم ستر ستر گاڑیوں کے جلو میں شاہانہ کروفر کے ساتھ حکومت کے بھرپور وسائل کو استعمال کرتے ہیں۔ خواہ سفر ہو یا حضر۔ اور عوام مصیبت اور ناگہانی کے وقت بے وسائل خالی ہاتھوں سے اپنی مدد آپ کررہے ہوتے ہیں۔ سچ بتائیے کیا ہیلی کاپٹر کو صرف اپنے جلسوں، جلوسوں میں وقت پر پہنچنے کے لیے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے؟ کیا بچیوں کی تلاش کے لیے، اُن کو زندہ سلامت بچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آخر چند میل ہی کا تو علاقہ تھا، ہیلی کاپٹر سے باآسانی انہیں ڈھونڈا جاسکتا تھا۔ لیکن عوام تو عوام ہیں نا۔ یہ وسائل اُن کے لیے تھوڑی ہیں، وہ تو کیڑے مکوڑے ہیں، اُن کی طرح زندہ رہتے ہیں اور اُن کی طرح ہی مرجاتے ہیں۔
ہاں الیکشن کے قریب آنے پر اُن کے رتبے میں کچھ تبدیلی آجاتی ہے۔ پھر بھی بریانی کی پلیٹ اور قیمہ کے نان پر بہل جاتے ہیں۔ بس ذرا سبز باغ جم کر دکھانے ہوتے ہیں۔ یہ سوچ عوام نے خود ہی اپنے بارے میں بنائی ہے۔ ورنہ جمہوریت میں عوام کی طاقت کا لوہا تو دنیا مانتی ہے۔ پاکستان کے قیام کو ستر سال کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن جمہوریت کے فوائد اس قدر ہرگز نظر نہیں آتے جتنے کے آنے چاہئیں۔ عوام کی نہ تو مناسب تربیت کی گئی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر جمہوری کلچر کو پروان چڑھایا کیوں کہ یہ سب انہیں سوٹ کرتا ہے ان کے لیے عوام کا شعور بیدار ہونا خطرناک ہے۔ لہٰذا انہوں نے معاملات کو یوں ہی چلنے دیا کیوں کہ عوام کا سیاسی شعور انہیں مصیبت میں ڈال سکتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی خبر ایسی آتی ہے کہ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ عوام کچھ کچھ جاگتے جارہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں (ن) لیگ کے رہنما جمال لغاری نے پانچ سال بعد اپنے علاقے کا دورہ کیا تو نوجوانوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا، دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں کو بھی اپنے علاقوں میں عوام کے سخت سوالوں کا سامنا ہے خاص طور سے پی پی اور پی ٹی آئی کو۔ عوام کی سوچ کی تبدیلی میں بہت زیادہ ہاتھ سوشل میڈیا کا ہے، جہاں اظہار آزادی اور مواقع کی موجودگی کے ذریعے بات کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ جس کا اثر ہورہا ہے جس کے باعث سوشل میڈیا پوری دنیا میں ایک موثر ہتھیار بن چکا ہے۔
چناں چہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے عوام کے سیاسی شعور کو جگایا جاسکتا ہے انہیں عوامی رہنماؤں کی غیر عوامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا جاسکتا ہے تا کہ عوام الیکشن میں ووٹ کی ایک پرچی کو اپنے حق میں استعمال کرسکیں۔ جیسے جمال لغاری کو علاقے کے نوجوان پانچ سال بعد ان کی شکل دیکھ کر 25 جولائی کو اس کا جواب دینے کا اعلان کرتے ہیں اور جمال لغاری اُن سے کہتے ہیں کہ اپنے سردار پر ایک پرچی کا احسان دھرتے ہو؟؟؟۔ حالاں کہ یہ پرچی کا احسان ہی ہوتا ہے کہ وہ گاڑیوں کے جلوسوں، ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے مزے لیتے پھرتے ہیں۔ حکومت کے وسائل خوب خوب استعمال کرتے ہیں جن پر حقیقت میں عوام کا حق ہوتا ہے۔سچی بات ہے اگر عوام جاگ گئے تو انہیں حکومت کے وسائل یوں بے دردی سے لٹانے کی ہمت نہیں ہوگی۔ اور عوام مصیبت اور ناگہانی میں خالی ہاتھ بے وسائل پریشان نہیں ہوں گے۔ انہیں حکومت کے اداروں اور وسائل کے لیے انہیں آواز دینے کا حق حاصل ہوگا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عوام کو شعور ہو کہ جمہوریت کے فوائد ڈاکوؤں اور لٹیروں کو حکومت کے ایوانوں میں پہنچانے سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ ووٹ کی امانت دیانتدار اور امانت دار افراد کو دینے سے ہوتے ہیں۔