جون پیر کا دن عید کا تیسرا روز جامع مسجد فاروق اعظم میں جناب مظفر ہاشمی اپنے پڑوسی اور قریبی دوست پروفیسر ہارون رشید، آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ، شکیل خان ودیگر کے ساتھ عصر کی نماز میں شریک ہیں کہ نماز کے بعد پرائیویٹ اسکولز ایسو سی ایشن کے رہنما خالد شاہ کی نماز جنازہ ہے جو پچھلے دنوں پنجاب میں ایک ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان ساتھیوں میں سے کسے معلوم تھا کہ ہمیں دوسرے دن بھی اسی مسجد میں دوبارہ اپنے ہی ایک ساتھی جناب مظفر ہاشمی کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آنا ہوگا۔ پیر کی رات 11بجے ہاشمی صاحب کی طبیعت خراب ہوئی انہیں ٹبا اسپتال لے جایا گیا منگل کی صبح ان کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مظفر ہاشمی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1980 میں فاران کلب کے خالی پلاٹ پر ہوئی تھی جہاں اس وقت کے فاران کلب کے صدر عبدالرحمن چھاپرا نے زمین مل جانے کی خوشی اور اس پر فاران کلب کی عمارت کی تعمیر کے سلسلے میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا تھا فاران کلب کو یہ زمین دلانے میں اس وقت کے مےئر کراچی عبدالستار افغانی اور خود مظفر ہاشمی کی کوششوں کا بڑا دخل تھا۔ مظفر ہاشمی بلدیہ کراچی میں اپنے علاقے نارتھ ناظم آباد بلاک A سے منتخب کونسلر تھے۔ پھر 1983 کے دوسرے بلدیاتی انتخاب میں آپ اپنے اسی علاقے سے دوبارہ کونسلر منتخب ہوئے۔ مےئر کراچی کا جب دوبارہ انتخاب ہوا تو افغانی صاحب کے مقابلے میں عبداللہ حسین ہارون تھے افغانی صاحب نے 19ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ان کے ساتھ ہی مظفر احمد ہاشمی ڈویژنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے چیرمین منتخب ہوئے۔ بلدیہ کراچی میں افغانی صاحب کا جو گروپ تھا اسے اخوت گروپ کا نام دیا گیا تھا ہاشمی صاحب اس کے روح رواں تھے اخوت گروپ کے نگراں برجیس احمد صاحب تھے۔
مجھے بھی جماعت نے مزدوروں کی مخصوص نشستوں پر کونسلر منتخب کرایا تھا اس طرح بلدیہ کراچی میں مجھے مظفر ہاشمی صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہاشمی صاحب نے مجھے افغانی صاحب سے کہہ کر اخوت گروپ کے سیکرٹری اطلاعات کی ذمے داری دے دی۔ 1985میں ملک میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے مظفر احمد ہاشمی لیاقت آباد سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے اس نشست میں کچھ حصہ فیڈر بی ایریا کا بھی آتا تھا ہاشمی صاحب کے مقابلے میں جماعت اہلسنت کی طرف سے مولانا سعادت علی قادری اور مسلم لیگ کی طرف سے شیخ لیاقت حسین ( ڈاکٹر عامر لیاقت کے والد) امیدوار تھے۔ جماعت کے کارکنان نے بھر پور مہم چلائی ہاشمی صاحب یہاں سے کامیاب ہو گئے۔ دوسری بار مظفر احمد ہاشمی 1993 میں فیڈرل بی ایریا اور ناتھ کراچی کی نشست سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، اس طرح مظفر ہاشمی صاحب دو مرتبہ کونسلر اور دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2002 کے انتخابات میں بھی وہ متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اس نشست پر قومی اسمبلی کے امیدوار تھے جہاں سے لئیق خان منتخب ہوئے لئیق خان تو ہاشمی صاحب کے کورنگ امیدوار تھے بعد میں ایک جماعتی فیصلے کے تحت ہاشمی صاحب کو نارتھ ناظم آباد کی صوبائی نشست پر انتخاب لڑایا گیا۔ اگر ہاشمی صاحب قومی کی نشست پر ہی رہتے تو وہ تیسری دفعہ بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر ہیٹ ٹرک کر لیتے۔
ہاشمی صاحب کی زندگی سے اگر ہمیں کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہی انہوں نے ہمیشہ جماعتی نظم کے فیصلوں کی پوری دلجمعی سے پابندی کی۔ ہاشمی صاحب کی خدمات اور کارکردگی کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ کسی ایک چھوٹے سے مضمون میں اس کو سمویا نہیں جا سکتا اس کے لیے تو ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ ہاشمی صاحب جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ آپ جماعت کے نظریات سے وابستہ ادارے جمعیت الفلاح کے صدر بھی تھے اور بڑی عرق ریزی اور محنت سے آپ اس ادارے کو چلارہے تھے۔ جمعیت کے تحت ہر ماہ کبھی دو بار کوئی نہ کوئی پروگرام ضرور رکھتے تھے اس کے علاوہ آپ شعر و ادب کی تنظیم ادارہ تعمیر ادب کے بھی ذمے دار تھے پہلے شمیم صاحب مرحوم ادارہ تعمیر ادب کے ذمے دار تھے اسی طرح فلسطین فاؤنڈیشن کے بھی سربراہ تھے اور اس حوالے کئی بار فلسطین کا بھی دورہ کیا۔ بے سہارا خواتین کا ایک ادارہ گوشہ عافیت کی سرپرستی بھی کرتے تھے اس ادارے کوہاشمی صاحب کی اہلیہ دیکھ رہی ہیں۔
جب ہاشمی صاحب قومی اسمبلی کے رکن تھے تو اسلام آباد جاتے وقت ان کا ایک الگ بیگ ہوتا تھا جس میں لوگوں کی درخواستیں۔ دستاویزات اور ایک فہرست ہوتی تھی کس کا کیا کام ہے آپ وہاں اسمبلی کا اجلاس بھی اٹینڈ کرتے تھے اور بقیہ وقت میں لوگوں کے مسائل بھی حل کرتے تھے، واپسی پر وہ جن جن لوگوں کے کام ہوجاتے ان کے کاغذات واپس کرتے یا اس مسئلے پر جو پیش رفت ہوتی اس سے آگاہ کرتے۔ کم از کم ایسے سیکڑوں لوگ ہوں گے جن کو ہاشمی صاحب نے مختلف محکموں میں ملازمتیں دلائی ہوگی۔ ہزاروں لوگ ہوں گے جن کے ذاتی مسائل حل کرائیں ہوں گے اس کا کہیں کوئی ریکارڈ تو نہیں ہے لیکن اللہ میاں کے یہاں سب کچھ موجود ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کا اجر دے گا کہ ہاشمی صاحب اللہ کے بندوں کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ ہاشمی صاحب کے قومی اسمبلی کے اسٹاف سے بھی خوشگوار تعلقات تھے، ایک صاحب ہمارے حلقے سے گئے وہاں انہوں نے ہاشمی صاحب سے رابطہ کیا ہاشمی صاحب نے ان کا مسئلہ بھی حل کیا اور اپنے ہاسٹل میں ان کے رہنے کا بھی انتظام کیا وہ صاحب واپسی پر بڑی مسرت کے ساتھ ہاشمی صاحب کی میزبانی کی تعریف کررہے تھے۔
مظفر ہاشمی مجھ سے شاید خصوصی محبت رکھتے تھے کہ میں جب کبھی لکھنے لکھانے کا سلسلہ روک دیتا تو یہ ہاشمی صاحب ہی ہوتے جو مجھے بار بار ٹوکتے اور جب جہاں بھی ملاقات ہوتی تو وہ یہی کہتے کہ بہت دنوں سے آپ کی کوئی تحریر نظر نہیں آرہی ہے کیا بات ہے ؟ آپ نے لکھنا لکھانا چھوڑ دیا؟ پھر وہ کہتے کہ دیکھیں مجھے فکر یہ ہے کہ آپ خود اپنے آپ کو ضائع کررہے ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوئی صلاحیت دی ہے تو اس کو استعمال میں لائیں چناں چہ ان کے کہنے پر یہ سلسلہ پھر شروع ہو جاتا پھر وہ میری تحریروں کو پڑھتے بھی تھے حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے اور جہاں کچھ اصلاح کی ضرورت ہوتی تو اسے بھی بتاتے تھے۔
ہاشمی صاحب کی عمر اسی سال تھی، ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے درمیان سے کوئی اسی برس کا نوجوان اٹھ گیا اس لیے کہ ان کے تحرک میں کبھی ان کی عمر اور بیماری آڑے نہیں آئی وہ بیمار بھی رہتے لیکن انہوں نے اپنی بیماری کو اپنی فعالیت پر غالب نہیں آنے دیا بلکہ ان کی فعالیت اور تحرک ہی ان کی بیماری پر غالب رہتا تھا۔ ہاشمی صاحب بڑے خوب صورت اخلاق کے نفیس انسان تھے ان سے مل کر ایک روحانی خوشی سی محسوس ہوتی تھی۔ ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین