انتخابات سے پہلے گھمسان کا رن

262

عام انتخابات میں ابھی ایک مہینہ اور چند روز باقی ہیں لیکن انتخابات سے پہلے ہی سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کے چناؤ کے معاملے پر گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں قاعدہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں اپنے جو امیدوار کھڑے کرتی ہیں وہی پارٹی کے انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لینے کے مجاز ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن باقاعدہ اس کا اجازت نامہ جاری کرتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہا ہو اور کسی پارٹی کا انتخابی نشان اپنے حق میں استعمال کر لے یا الیکشن کمیشن اسے ایسا کرنے کی اجازت دے دے۔ سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی نشان کے لیے الیکشن کمیشن کو درخواست دیتی ہیں اور وہ انہیں ان کی مرضی کے انتخابی نشان الاٹ کردیتا ہے۔ اس طرح آزاد امیدواروں کو بھی الگ الگ انتخابی نشان الاٹ کیے جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ طے ہوچکا ہے ہم جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان شیر ہے۔ تحریک انصاف نے بلے کا انتخاب نشان الاٹ کرا رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی تیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے اور متحدہ مجلس عمل نے کتاب کو اپنا انتخابی نشان بنایا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے پارلیمانی بورڈ کے ذریعے امیدواروں کا چناؤ کرتی ہے پھر انہیں اپنے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن کے میدان میں اُتارتی ہے۔ یہ عمل اگرچہ مکمل ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود بعض سیاسی پارٹیوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے اور ان کے امیدوار اور کارکن اپنے سیاسی حریفوں سے پنجہ آزمائی کے بجائے آپس میں گتھم گتھا ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی منظرنامہ دلچسپ بھی ہے اور تجزیہ کاروں کے نزدیک تشویشناک بھی۔
تحریک انصاف کے پاس ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کی بھرمار ہے۔ یہ سب لوگ ٹکٹ اور بلے کا نشان ملنے کی اُمید میں پارٹی میں آئے ہیں۔ کپتان نے ان میں سے اپنی پسند کے امیدوار چن لیے ہیں اور انہیں بلے کا انتخابی نشان الاٹ کردیا ہے ایک تھیوری یہ بھی گردش کررہی ہے کہ جو خفیہ طاقت کپتان کو وزیراعظم بنوانا چاہتی ہے اس نے اِن ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کے نام کپتان کو فراہم کیے ہیں اور کپتان ان ناموں کو فائنل کرنے پر مجبور ہے۔ بیچارے پارٹی کارکن سر پیٹ رہے ہیں، بنی گالا میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں وہ لوگ جو بیس سال سے کپتان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہوئے تھے اور ناموافق موسم کی سختیاں اس اُمید پر برداشت کررہے تھے کہ کبھی ان کی اُمید بھی بَر آئے گی اور وہ بلے کا نشان لہراتے ہوئے انتخابی میدان میں اُتر سکیں گے، سخت مایوسی کا شکار ہیں کپتان نے ان سے آنکھیں پھیر لی ہیں، انہیں پہچاننے سے انکار کردیا ہے، یہ لوگ احتجاج کررہے ہیں لیکن کپتان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی نہیں کرے گا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں اس نے کہا ہے کہ الیکٹ ایبلز کے بغیر انتخابات جیتے نہیں جاسکتے، یہ لوگ کامیاب ہونے کا ہنر جانتے ہیں۔ اگر 2013ء کے انتخابات میں یہ الیکٹ ایبلز اس کے ساتھ ہوتے تو وزیراعظم بننے کا معرکہ سر کرچکا ہوتا۔ کپتان سے انٹرویو کرنے والی خاتون نے پوچھا کہ آپ اس موقع پر قوم کو کیا پیغام دینا چاہیں گے، کپتان نے فخریہ انداز میں کہا کہ میرا پیغام یہ ہے کہ 25 جولائی کے بعد نیا پاکستان وجود میں آجائے گا جس میں میرٹ کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی ہوگی۔ ستم ظریفوں نے اس کے پیغام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں کپتان نے جو میرٹ قائم کیا ہے اگر وزیراعظم بننے کے بعد اس نے پاکستان میں یہی ’’میرٹ‘‘ برقرار رکھا تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے وہ تباہی مچے گی کہ لوگ زرداری اور نواز شریف کے دور کو بھول جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے مایوس کارکن کپتان کے الیکٹ ایبلز کے خلاف میدان میں آگئے اور انہوں نے ووٹروں کا رُخ پھیر دیا تو پھر کیا ہوگا؟۔
لیجیے صاحب تحریک انصاف کا سیاسی منظرنامہ خاصا طول کھینچ گیا۔ یار لوگ فی الحال اسی پارٹی کو سکہ رائج الوقت قرار دے رہے ہیں اگر انتخابات صاف و شفاف ہوئے اور پولیٹیکل انجینئرنگ نے کوئی کرشمہ نہ دکھایا تو 25 جولائی کو پتا چلے گا کہ یہ پارٹی سکہ رائج الوقت تھی یا کھوٹا سکہ۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) بھی اپنے مسلز پھیلائے ہوئے ہے لیکن ٹکٹوں کی تقسیم میں اس کے اندر بھی ’’گھڑمس‘‘ مچا ہوا ہے۔ نااہل تا حیات قائد کے ساتھ وفاداری کو جانچا جارہا ہے۔ شہباز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں لیکن ان کی سنتا کون ہے، وہ چاہتے تھے کہ چودھری نثار پارٹی ٹکٹ مانگیں نہ مانگیں انہیں ملنا چاہیے، پارٹی کے عقابوں نے ان کی یہ کوشش ناکام بنادی۔ چودھری نثار خود بھی (ن) لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے تھے اب ٹکٹ نہ ملنے پر اپنی آئی پر اُتر آئے ہیں اور (ن) لیگ کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ ادھر جاوید ہاشمی بھی اُمید اور ناامیدی کے درمیان لٹک رہے ہیں انہوں نے کاغذات جمع تو کرادیے ہیں لیکن ٹکٹ انہیں ابھی تک نہیں ملا۔ وہ جس انداز میں مسلم لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اب اگرچہ نہایت منت ترلے کے ساتھ انہوں نے اس کی تلافی کردی ہے لیکن تاحیات قائد کے دل کا غبار نہیں مٹا اور ہاشمی صاحب اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے یہ جملہ دہرا رہے ہیں کہ اگر قیادت نے اجازت دی تو الیکشن لڑوں گا ورنہ دستبردار ہوجاؤں گا۔ کاغذات نامزدگی کی واپسی کا آخری مرحلہ طے ہوگا تو پتا چلے گا کہ تاحیات قائد نے اپنے کتنے چاہنے والوں کو انتخابات کی دوڑ سے باہر کردیا ہے۔ رہی پیپلز پارٹی تو اس کے ماسٹر مائنڈ آصف زرداری اندر خانہ جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور 25 جولائی کو سرپرائز دینا چاہتے ہیں، کیا وہ اس میں کامیاب ہوسکیں گے؟۔
اب آخر میں کچھ ذکر جماعت اسلامی کا۔ جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے کتاب کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے اس کے پاس نام نہاد الیکٹ ایبلز نہیں ہیں، ایثار پیشہ، مخلص، دیانتدار اور باصلاحیت کارکنوں کی ایک ٹیم ہے، اس ٹیم میں سے جماعت نے اپنے جن امیدواروں کا چناؤ کیا ہے وہ اسے اپنے لیے ایک آزمائش سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے کردار کی دولت کے ساتھ انتخابی میدان میں اُتریں گے اور ووٹروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ مجلس عمل نے اپنا انتخابی منشور شائع کردیا ہے اس منشور کے علاوہ جماعت کے امیدواروں کے پاس ووٹروں کو دینے کے لیے اور کچھ نہیں ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ پاکستان اس وقت انقلاب کی دہلیز پر کھڑا ہے، ہر سیاسی جماعت انتخابات کے ذریعے اپنے مطلب کا انقلاب لانا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف نیا پاکستان بنانے کے چکر میں ہے، مسلم لیگ (ن) کی خواہش ہے کہ احتساب کا سارا عمل کالعدم کرکے حکومت پھر شریفوں کے حوالے کردی جائے۔ پیپلز پارٹی کا انقلاب یہ ہے کہ ملک کو لوٹو اور پکڑائی نہ دو۔ متحدہ مجلس عمل ملک میں نفاذ اسلام کا داعیہ رکھتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات کی پٹاری سے کون سا انقلاب برآمد ہوتا ہے۔