ہوا کچھ یوں بھی تھا

280

جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو حکومت برطرف کی تو جونیجو کی بنائی ہوئی وفاقی کابینہ اور صوبائی وزراء اعلیٰ کو اپنے ساتھ ہی رکھا‘ نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے‘ اور ضیاء الحق کی وجہ سے ان کا کلہ بھی مضبوط تھا حکومت کی برطرفی کے چند ماہ بعد ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے اس حادثے نے ان تمام لیگی رہنماؤں کے خواب بکھیر دیے جو ضیاء الحق کی چھتری تلے سیاست میں آگے بڑھنا چاہتے تھے‘ یہی بکھرے ہوئے خواب اور مستقبل میں پیسے کے زور پر سیاست کرنے والے لیگی رہنماؤں نے ایک نئی سیاسی دنیا آباد کرنے کی ٹھانی‘ کچھ رہنماء فدا محمد خان کی قیادت میں نئی مسلم لیگ میں اکٹھے ہوئے اور نواز شریف اس کے پہلے جنرل سیکرٹری بنائے گئے‘ نوجوان تھے‘ وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے تھے‘ سیاسی کارکنوں اور بیوروکریسی میں بھی اپنا اثر بڑھا چکے تھے لہٰذا کچھ لیگی رہنماؤں نے انہیں آگے آنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ فرنٹ سیٹ سنبھالیں‘ ایک وقت وہ تھا کہ مسلم لیگ کا حامی اخبار ان کی خبر لگانے کے لیے تیار نہیں تھا اور انہیں مسلم لیگی بھی تسلیم نہیں کرتا تھا اور ان کے مقابلے میں پیر پگارہ‘ اقبال احمد خان‘ خواجہ خیر الدین‘ محمد حسین چٹھہ جیسے پرانے مسلم لیگی کارکنوں کو اس اردو روزنامے میں اہمیت دی جاتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی چمک نے کام دکھایا تو یہ روزنامہ بھی رام ہونا شروع ہوا‘ اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی اور اس کی مخالف سیاسی قوتوں میں کشمکش اپنے عروج پر تھی۔
1988 اور اس کے بعد 1990 کے عام انتخابات بھٹو کے ہامیوں اور مخالفوں کے مابین تلخیوں میں ہوئے اور پیپلزپارٹی کے مقابلے کے لیے نواز شریف کو اٹھانا اور انہیں لیڈر بنانا مجبوری بن گیا تھا‘ حالاں کہ ایک وقت یہ بھی آیا نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کو اپنے گھر بلایا اور انہیں قیمتی شال تحفے میں دی‘ اور ساتھ یہ پیغام دیا کہ وہ سیاسی کشمکش نہیں کرنا چاہتے لیکن نواز شریف کے سہولت کاروں کو یہ بات پسند نہیں آئی اور انہیں باور کرانے لگے کہ وہ ملک کے چاروں صوبوں میں مقبول ہورہے ہیں‘ بس ہمت پکڑیں‘ اس کے بعد انہیں پیپلزپارٹی کے مقابلے کا لیڈر بنا دیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ غلام مصطفی جتوئی کے ہوتے ہوئے نواز شریف 1990 کے انتخابات کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنائے گئے‘ وزیر اعظم بن جانے کے بعد نواز شریف کو بتایا اور سمجھایا گیا کہ پارٹی قیادت سنبھالے بغیر حکومت نہیں کی جاسکتی‘ بس پھر غلام حیدر وائیں‘ چودھری شجاعت حسین سمیت بہت سے پرانے مسلم لیگی پارٹی آئین میں نواز شریف کے لیے گنجائش پیدا کرنے میں لگ گئے جس کے نتیجے میں ایک روز مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھ دی گئی۔
1993 میں جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت برطرف کی تو اس کے بعد نواز شریف نے اپنے ہامیوں اور مسلم لیگ میں اپنے مخالفین کے درمیان لکیر کھینچ دی‘ مسلم لیگیوں میں ملک نعیم‘ آفتاب شیخ‘ چودھری نثار علی خان‘ جیسے دیگر سات آٹھ افراد نواز شریف کو لیڈر بنانے کے لیے دن رات جت گئے‘ ان کوششوں کے نتیجے میں ایک شرمیلا سا مسلم لیگی کارکن‘ شہری بابو مسلم لیگ کا رہنما اور قائد بن گیا اور اپنے لیے راستے خود ہی بناتا رہا‘ اب مسلم لیگ (ن)‘ تئیس لیگی دھڑوں میں سب سے زیادہ سیاسی لحاظ سے متحرک دھڑا بن چکا ہے‘ نواز شریف کی سیاست کے ایک ایسے موڑ پر پہنچ کر چودھری نثار علی خان انہیں چیلنج کرنے لگے ہیں اور احسان جتانے لگے ہیں‘ مگر اب وقت بہت دور جاچکا ہے۔ چودھری نثار علی خان آزاد امیدوار ہونے کا لاکھ دعویٰ کریں‘ نواز لیگ کا ٹکٹ ان کی سیاسی مجبوری ہے اپنی انتخابی مہم کے آغاز پر اپنے آبائی حلقہ چکری چونترہ میں عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس کے ساتھ مخلوق خدا ہو، اس کی ’’کنڈ‘‘ نہیں لگتی یہ بھی کہا وہ راز کھول دینا چاہتے ہیں لیکن بیگم کلثوم نواز کی خرابی صحت کے باعث میاں نوازشریف کے بارے میں زیادہ بات نہیں کریں گے اس کے باوجود انہوں نے بات کھول دی ہے اور کہا کہ نوازشریف ہم سے زیادہ اہل نہیں تھے تاہم حاجی نواز کھوکھر کے گھر میٹنگ میں شریک 20 اکابرین نے نوازشریف کو آگے کر دیا۔ آج ان میں سے کوئی ایک شخص بھی نوازشریف کے ساتھ نہیں۔ ان کے بقول انہوں نے 34 سال میاں نوازشریف کا بوجھ برداشت کیا ہے ان کی جذباتی تقریر کے دوران پنڈال میں سے کچھ لوگوں نے ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے بھی لگائے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی سیاسی جماعت میں پارٹی پالیسی اور اقدامات پر اختلافات ہو سکتے ہیں تاہم ان اختلافات کا اظہار پارٹی کے اندر ہی پارٹی کے تنظیمی اجلاسوں کے دوران کیا جاتا ہے اور جب کسی پارٹی عہدیدار یا رکن کے اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلافات پارٹی کے اندر طے نہیں ہو پاتے تو پارٹی قیادت سے اختلافات رکھنے والے عہدیدار کے پارٹی میں موجود رہنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز برقرار نہیں رہتا۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پارٹی قیادت سے اختلاف کرنے والے ارکان اس پارٹی کو خیر باد کہہ کر اپنی سیاسی سوچ کے مطابق کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے یا اپنی الگ پارٹی تشکیل دیتے رہے ہیں، تاہم پارٹی کے اندر رہتے ہوئے پارٹی کی قیادت اور اس کی پالیسیوں کو برا بھلا کہنے کی روایت چودھری نثار علی خان نے ڈالی جو کسی سیاسی اخلاقیات کے زمرے میں نہیں آتی۔
پاناما کیس میں میاں نوازشریف کی نااہلیت کے بعد تو چودھری نثار علی خاں مسلم لیگ (ن) کے اندر رہتے ہوئے بھی پارٹی قیادت کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آ گئے اور انہوں نے بالخصوص نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کی پارٹی کے اندر سرگرمیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ انہوں نے ان حالات میں پارٹی قیادت کوکھلم کھلا تنقید کانشانہ بنانا شروع کر دیا اس وقت جب کہ بیگم کلثوم نواز لندن کے اسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے ان حالات میں بھی پارٹی قیادت کو نہیں بخشا اور اپنے جلسے میں ان پر اپنے ماضی کے احسانات جتانا بھی ضروری سمجھا جب انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ انہوں نے 34 سال تک نوازشریف کا بوجھ اٹھایا ہے تو اس کے بعد بیگم کلثوم نواز کی خرابی صحت کے باعث ان کی مزید کچھ نہ کہنے کی بات ایک بھونڈا مذاق ہی نظر آتی ہے۔ وہ جن حالات اور جس عامیانہ انداز میں نوازشریف کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، انہیں خود ہی جائزہ لے لینا چاہیے کہ ان کا طرز عمل کون سی سیاسی اخلاقیات کی عکاسی کر رہا ہے ان کا یہ کردار تو برادران یوسف والا ہی نظرآتا ہے ان کے عمل پر مسلم لیگ کی جانب جو ردعمل آیا ہے اس نے چودھری نثار علی خان کی نیند چھین لی ہے۔