وہ جو بُت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں

2133

جب سے سنا ہے کہ۔۔۔ ’’ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے‘‘۔۔۔ تب سے ہمیں بھی اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی فکر پڑ گئی ہے۔ اب فکر یہ لگی ہوئی ہے کہ ہماری اصل ہے کیا؟ اصل معلوم ہو تب ہی تو ہم اس کی طرف لوٹ سکیں گے۔ بہت سوچا تو یاد آیا کہ ہم تو اصل میں بچے ہیں اور بچے ہی تھے۔ امتدادِ زمانہ سے بگڑ کر بڑے ہوگئے ہیں۔ ایک ہم ہی کیا؟ یہاں آپ کو جتنے نظر آرہے ہیں، سب کے سب اصل میں بچے تھے۔ خود آپ بھی۔ خدا لگتی کہیے ۔۔۔ ایسے نہیں، دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے ۔۔۔ کیا آپ اصل میں بچے نہیں تھے؟ ۔۔۔ بالکل تھے۔۔۔ اور یہ جو آپ کو آج ہر طرف بہت بڑے بڑے لوگ نظر آ رہے ہیں، یا وہ لوگ جو آج آپ کے سامنے بہت بڑے بڑے لوگ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ یہ کیا تھے؟ اور کیا ہیں؟ ۔۔۔ ارے صاحب! یہ تو ’’کل کے بچے ہیں‘‘۔ ہر طرح سے معصوم بچہ ہی ہر انسان کی اصل ہے۔
جب ہم بچے تھے تو ہر دوسرے تیسرے روز سنا کر تے تھے کہ ۔۔۔ ’’آج کے بچے کل کے بڑے ہیں‘‘ ۔۔۔ (دوسرے تیسرے روز کی شرط ہم نے یوں لگائی کہ پہلے روز تو پیدائش ہی کی اتنی آپا دھاپی ہوتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی) ۔۔۔ مگر اب جب بڑے ہوگئے تو کسی بچے میں بھی یہ کہنے کی جرأت ہے، نہ کسی بڑے میں یہ سننے کی سکت کہ صاحب! ۔۔۔ ’’آج کے بڑے تو کل کے بچے ہیں‘‘۔
کسی روز اگر فرصت نکال کر آپ ایک ایک بڑے کو غور سے دیکھیں، توجہ سے سنیں اور گہری نظر سے اُس کی حرکات و سکنات و عادات کا تجزیہ کریں تو اس اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے کہ:
ماضی گُندھا ہوا ہے بشر کے خمیر میں
یعنی یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، انہیں یہی کرنا تھا۔ ان کو، ان کے بچپن سے کچھ اسی قسم کی تربیت ملی ہے۔ سو، ان کی اصل اب یہی ہے!
جو ہوا، سو ہوا۔ جو ہو رہا ہے، سو ہو رہا ہے۔ مگر آئندہ کیا ہوگا؟ (یہ بھی صاف نظر آرہا ہے) آئندہ وہی ہوگا، جس کی تربیت آج کے بچوں کو دی جا رہی ہے۔
اس موقع پر ہمیں اپنے بچپن کا پڑھا ہوا ایک اقتباس یاد آگیا۔ (ہمارا بچپن کچھ اسی قسم کے اقتباسات پڑھتے پڑھتے بِیت گیا تھا)۔ اب آج جب ہم اپنی اصل کی طرف لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں تو یہ اقتباس بھی حافظے میں لوٹ آیا ہے۔
’’ہماری اصلی دولت عورتوں ہی کے پاس ہے۔ نسلیں انھی کی تحویل میں ہیں۔ ان کا بٹھایا ہوا نقش قبر تک کھرچنے کے باوجود نہیں مٹتا۔ خواہ وہ نقشِ باطل بٹھائیں یا نقشِ حق۔ وہ چاہیں تو ان کے فیضِ تربیت سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو ہماری تاریخ کو از سرنو روشن کردیں، اور چاہیں تو اسی طرح کے لوگوں کو جنم دیں جیسے کہ آج کل کے مسلمان ہیں‘‘۔
آج کی مائیں جو نقوش اپنے بچوں کے قلب و ذہن پر، ان کی عادات و اطوار پر اور ان کی نفسیات پر ثبت کر رہی ہیں، وہ آپ کے سامنے ہی کر رہی ہیں۔ یہ بھی نہیں کہ آپ سے چھپ چھپا کر کررہی ہوں۔ سو آپ بھی دیکھ ہی رہے ہیں، اور صرف دیکھ ہی رہے ہوں گے، کیوں کہ اس بڑھاپے میں آپ کا بھی وہی حال ہوگیا ہوگا کہ:
ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم
یعنی ٹکر ٹکر دیکھے جا رہا ہوں، (ٹھیک سے) سانس بھی نہیں لے پا رہا ہوں۔
اپنی محرومی کا، اپنے آپ کو نظر انداز کیے جانے کا، اور اپنی حق تلفی کا رونا، اس ملک کا، اس قوم کا، کون سا ایسا طبقہ ہے، جو نہیں رو رہا ہے۔ بڑے سے بڑا طبقہ، حکمران طبقہ ہی ہو سکتا ہے۔ سو، وہ بھی ’’مجھے کیوں نکالا ۔۔۔ مجھے کیوں نکالا‘‘ کا رونا روئے جاتا ہے۔ مگر سچ پوچھیے تو اس ملک کا اور اس قوم کا سب سے زیادہ نظر انداز کیا ہوا طبقہ اور اپنے حقوق سے سب سے زیادہ محروم طبقہ، اس ملک کے، اس قوم کے بچے ہیں۔ ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ ان کا حق ہے کہ ان کو اچھی تربیت دی جائے۔ ان کا کردار سنوارا جائے۔ ان کا اخلاق بلند کیا جائے۔ انہیں صادق و امین بنایا جائے۔ مگر کیا کسی کو ان کاموں کے کرنے کی کوئی فکر پڑی ہوئی ہے؟ صاحبو! محولہ بالا نعرہ اگر اس قوم کے بچے لگائیں تو وہ بالکل برحق ہوں گے۔
مگر صورتِ حال ایسی مایوس کُن بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے بچوں کو لے کر پولوشن سے آلودہ کسی دریا میں کود جائیں یا چوبیس گھنٹے لیٹ ہو جانے والی کسی ٹرین کے نیچے آ کر کٹ جائیں۔ خود کُشی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُن لوگوں کا ہاتھ بٹائیں جو آج بھی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر بچوں کی تربیت کا بیڑا اُٹھائے ہوئے ہیں۔ بہت سی تنظیمیں، کئی ادارے اور متعدد افراد، اس کارِ خیر میں آج بھی جٹے ہوئے ہیں۔
اس اہم کام کے سلسلے میں سب سے بڑا نام اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ہے۔ ملک بھر میں اسلامی جمعیت طلبہ کی بچہ تنظیمیں (بلکہ بغل بچہ تنظیمیں) پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ تنظیمیں کسی مالی منفعت یا کسی سیاسی مفاد کے حصول کے لالچ کے بغیر بچوں کی تعلیمی، اخلاقی اور تہذیبی اور تمدنی تربیت میں منہمک ہیں۔ بچوں کے رسائل ہوں، بچوں کے لیے تیار کی جانے والی سمعی و بصری تخلیقات ہوں یا ان کی تحریری و تقریری و انتظامی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا عمل، اسلامی جمعیت طلبہ بچوں میں ان تمام سرگرمیوں کو بڑھ چڑھ کر فروغ دے رہی ہے۔ ان کے تربیتی کیمپ لگاتی ہے، ان کی سالانہ تقریبات کرتی ہے اور ان کے مابین انعامی مقابلے منعقد کرواتی ہے۔ آج بھی مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ کی مسندوں پر بیٹھے ہوئے وہ بہت سے لوگ جو موقع پاتے ہی اسلامی جمعیت طلبہ پر برس پڑتے ہیں، اُن کی اکثریت اپنی اکثر صلاحیتوں کے فروغ کے لیے اسلامی جمعیت طلبہ ہی کی تربیت کی مرہونِ منت ہے۔ اب جمعیت کہے تو بھلا کس کس سے کہے کہ:
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
اُن کو زباں ملی تو ہمی پر برس پڑے
پُر پوچھنا یہ ہے کہ سعی و جہد کرنے والوں کی ان تمام مساعی کے باوجود معاشرہ کیوں نہیں بدلتا؟ تو اے عزیزو! معاشرہ یوں نہیں بدلتا کہ بدلنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے ہاتھ میں ’’قوتِ نافذہ‘‘ نہیں ہے۔ جن کے ہاتھ میں قوتِ نافذہ ہے وہ بیرونی قوتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ مناصب کے بت کدوں میں بیٹھے ہوئے بہت سے ایسے صاحبانِ منصب کو ہم فرداً فرداً جانتے ہیں جو کانِ نمک میں جا کر نمک ہو گئے۔ اپنی اصل کو بھول گئے۔ لیکن ہم کہاں بھولتے ہیں؟ ہمیں خوب یاد ہے، ہم خوب جانتے ہیں اورہم خوب پہچانتے ہیں کہ:
میرے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم
آج بت خانے میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں
اگر یہ قوم ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں قوتِ نافذہ سونپ دے جو اپنی اصل کو نہیں بھولتے، تو ایسے لوگ قوم کا آج بھی بہتر کر سکتے ہیں اور قوم کا کل بھی!