ہوتا ہے الیکشن کا تماشا مرے آگے

1122

ہم نے اپنی اس مختصر سی عمر میں متعدد انتخابات دیکھ لیے۔ سب سے پہلا انتخاب اُس عمر میں دیکھا جو کھیل تماشے کی عمر تھی۔ سو ہم نے انتخابی عمل کو بھی کھیل تماشا ہی سمجھ کر دیکھا۔ اب ہمیں خود اپنی اُس سمجھ داری پر رشک آنے لگا ہے۔ دیکھیے ہم بچپن ہی سے کیسے دانشور اور فلسفی واقع ہوئے تھے۔ اُسی زمانے میں سمجھ گئے تھے کہ ہماری قوم انتخابی عمل کو کسی قسم کا سنجیدہ عمل نہیں سمجھتی۔ کھیل تماشا ہی سمجھتی ہے۔ سو، ہر انتخاب کے موقع پر پورے ملک میں میلے ٹھیلے کا سا ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ وہ سبھی کچھ ہوتا ہے جو میلوں ٹھیلوں میں ہوتا ہے۔ بینڈ باجے، ناچ گانا، ناٹک کھیلنا، کرتب دکھانا، بھیس بدلنا، سوانگ بھرنا، غُل غپاڑا مچانا، ہُوہااور شور شرابا کرنا، دھمال ڈالنا اور بالآخر رج کے کھانا پینا۔ سب کچھ ہو جائے تو آخر میں پتا چلتا ہے کہ اس قومی میلے میں کسی کی چادر چُرالی گئی تو کسی کے ووٹ۔
سب سے پہلا جمہوری تماشا جو ہماری یاد داشت میں محفوظ ہے، وہ ایوب خان کے بی ڈی انتخابات تھے۔ اُس وقت ہماری عمر ہوگی یہی کوئی آٹھ برس۔ یہ 1964ء کا زمانہ تھا۔ ملیر توسیعی کالونی میں ہمارے محلے کے مونچھوں والے بخاری صاحب (الیکشن میں کھڑے ہونے سے پہلے) ہماری گلی میں آکر کھڑے ہوگئے۔ کباڑی کبیر خان سے دو آنے کا خریدا ہوا کنستر دیکھتے ہی دیکھتے پینٹر و کارپینٹر سبکتگین نے چیر پھاڑ کر رکھ دیا۔ اب وہ کنستر کہاں رہا؟ ٹین کی ایک بہت بڑی تختی سی بن گئی۔ سبکتگین نے اپنی چھوٹی سی چھینی کی مدد سے اُس پر کچھ حروف کاٹے، پھر بڑی مہارت سے ایک کلھاڑی کی شکل تشکیل دی۔ یہ سب کچھ ہو گیا تو تختی کو مبارک صاحب کے گھر کی دیوار پر (جو بچوں میں ’نانے ابّا‘ کے نام سے مشہورو مقہور و معتوب تھے) اپنے ایک ہاتھ سے چپکایا اور دوسرے ہاتھ سے اُس پر تارکول مِلی ہوئی سیاہی سے ایک پُچارا سا پھیردیا۔ پچارا پھیر کے تختی ہٹائی تو ہم نے حیرت سے دیکھا کہ دیوار پر اُسی قسم کے حروف چھپ گئے جیسے کتبوں پر چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ کئی برسوں کے لیے دیوار پر تہمت کی طرح چپک جانے والی اس تحریر پر اوپر تلے تین سطروں میں لکھا تھا:
’’شاہد حسین بخاری۔۔۔ متحدہ محاذ کے متفقہ اُمیدوار ۔۔۔ انتخابی نشان کلھاڑی‘‘۔
اور چوتھی سطر میں ایک کلھاڑی بنی ہوئی تھی۔
کراچی میں ’’متحدہ محاذ‘‘ سے تعلق رکھنے والے بی ڈی ممبروں کی اکثریت کامیاب ہوگئی۔ اس میں بہت بڑی تعداد جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ارکان کی تھی۔ مگر جب 1965ء کے اوائل میں صدارتی انتخاب ہوا، جس میں ووٹ صرف بی ڈی ارکان کو ڈالنا تھا، تو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح صرف صوبہ مشرقی پاکستان سے اور مغربی پاکستان میں صرف سابق دارالحکومت کراچی سے کامیابی حاصل کر سکیں۔ باقی پورے ملک میں ’’جھرلو‘‘ پھیر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے چیف پولنگ ایجنٹ ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی تعداد میں بھاری قیمت پر بی ڈی ممبر خرید لیے تھے، تاکہ ’’ڈیڈی‘‘ کو ہر قیمت پر کامباب کرواسکیں۔ ووٹ تو صرف بی ڈی ارکان ہی کو دینا تھا، مگر محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کا بَیج ہم بھی اپنے سینے پر آویزاں کیے پھرتے تھے۔ ایوب خان کا انتخابی نشان گلاب کا پھول تھا اور ہمارے بیج پر لالٹین کے اوپر یہ مصرع لکھا ہوا تھا: ’’پھولوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘۔ (مگر ایسا نہ ہو سکا)۔
انتخابی دھاندلی اور مادر ملت کی مصنوعی شکست پر عوام میں پیدا ہونے والا غم وغصہ ابھی ایوب خانی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا روپ دھارنے ہی والا تھا کہ ستمبر65ء کی جنگ چھڑ گئی۔ ایوب خان دو تین سال کے لیے قومی ہیرو بن گئے۔ تاہم جب 1968ء میں ایوب خان نے اپنا ’’عشرۂ ترقی‘‘ (Decarama) منانا شروع کر دیا، جو قوم کی نظر میں آئینی اور دستوری لحاظ سے ’’عشرۂ انحطاط‘‘ تھا، یعنی زوال کے دس سال، تو دبی ہوئی عوامی تحریک یکایک زمین پھاڑ کر بالائے زمین آگئی۔ تحریک باہر آئی تو فوج بھی باہر آگئی۔ 25مارچ 69ء کو یحییٰ خان نے بندوق کی نوک پر ایوب خان کو نکال باہر کیا۔ ایوب خان جو مارشل لا لگا کر برسر اقتدار آئے تھے، مارشل لا لگوا کر چلتے بنے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات 1970ء میں منعقد ہوئے۔ اس میں بھی بڑا تماشا ہوا۔ بظاہر ملک بھر میں جماعتِ اسلامی کو بھر پور عوامی حمایت حاصل تھی۔ مگر انتخابی نتائج سامنے آئے تو صوبہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی اور ووٹوں کے اعداد و شمار کی رُو سے مشرقی پاکستان میں تقریباً ہر نشست پر دوسری پوزیشن جماعت اسلامی کے امیدوار کے حصے میں آئی۔ جب کہ مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی کو صرف چار نشستوں پر کامیابی نصیب ہوئی۔ دو صوبوں (صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب) میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی، مگر صوبہ سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختون خوا) اور صوبہ بلوچستان میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) اور مفتی محمودؒ کی جمعیت علماء نے مل کر اکثریت حاصل کی۔ قومی اسمبلی کی مجموعی اکثریت شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے حاصل تھی، مگر فوجی حکمران یحییٰ خان نے اس عوامی فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ملک ٹوٹ گیا۔ پیپلز پارٹی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور فوج نے اسے اقتدار سونپ دیا۔
1977ء میں پیپلز پارٹی کے زیر انتظام بلا مقابلہ منتخب ہوجانے کا ڈراما رچانے والے دھاندلی زدہ انتخابات ہوئے تو انتخابات کے نتائج کو عوام نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک تاریخی عوامی تحریک چلی۔ پھر فوج آگئی۔ فوج نے گیارہ برس تک اقتدار کے مزے لُوٹنے کے بعد غیر جماعتی انتخابات کرائے، دو تین غیر فوجی حکومتیں آئیں، پھر فوج آگئی۔ غرض یہ کہ یہاں اسی طرح کا تماشا ہوتا رہا۔
اس ملک پر کون حکومت کرے گا؟ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار ان کے ہاتھ میں نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ اتنا اختیار رکھتے ہیں کہ اُن کے حلقے میں قومی یا صوبائی اسمبلی کے جس امیدوار کو (کسی طریقے سے بھی) مقبولیت دلوا دی گئی ہو، ہانکا پڑنے پر اُس کے حق میں جا کر ووٹ بھگتا آئیں۔ ووٹ اُسی اُمیدوار کو دیا جاتا ہے، جس کے متعلق پہلے سے یہ بتایا جاتا ہو کہ وہی جیتے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی امیدوار کی جیت یا ہار کا فیصلہ اس امر پر موقوف ہو کہ دیکھیں عوام کس کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسی بھی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ووٹ کسی اور کے حق میں زیادہ پڑ گئے مگر نتائج کا اعلان ہونے پر جیتا وہی جس کے جیتنے کا پیشگی فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
آخری تماشا اسمبلیوں کی تشکیل کے بعد ہوتا ہے۔ مرکز میں کس کی حکومت بنے گی؟ صوبوں میں کون حکومت کرے گا؟ فیصلہ جوڑ توڑ سے ہوگا۔ لیکن کہا یہی جائے گا کہ اس حکومت کو عوام نے ’’مینڈیٹ‘‘ دیا ہے۔ یعنی جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا۔