الیکشن لڑنا کھیل نہیں ہے

828

ہم نے اپنے پچھلے کسی کالم میں لکھ مارا تھا کہ ہماری قوم انتخابی عمل کو کسی قسم کا سنجیدہ عمل نہیں سمجھتی۔ کھیل تماشا ہی سمجھتی ہے۔ مذکورہ کالم پڑھ کر وہ سب لوگ ہم سے خفا ہوگئے جو باہم الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان خفا لوگوں کی خوشی کے لیے اب ہمیں نیا کالم لکھنا پڑ رہا ہے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ کیوں کہ اب کی بار جتنی جماعتیں الیکشن لڑ رہی ہیں، ملک بھر میں اتنی ہی جماعتوں کے وابستگان بھی اپنی اپنی جماعتوں میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکشن ہے ہی ایسی چیز۔ اس میں لڑنا لازم ہے تو جھگڑنا ملزوم۔ سو، ہر طرف اس لازم و ملزوم کا اکھاڑا لگا ہوا ہے۔ الیکشن کی لڑائی نگرنگر، گھر گھاٹ ہو رہی ہے۔ کسی ایک سطح پر نہیں، بارہ باٹ ہو رہی ہے۔ (اے میاں احمد حاطب! اب بھلا ’’بارہ باٹ‘‘ سمجھے گا کون؟ وہ بٹے ترازو تو اب رہے ہی نہیں۔ آخر ایسے ہی محاوروں سے بچنے کے لیے تو جابجا برقی وزن پیما نصب کیے گئے ہیں)۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر الگ دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے۔ وہی ضمیر جعفری مرحوم کے ریل کے سفر والا حال ہے:
اِدھر کونے میں جو اِک مجلسِ بیدار بیٹھی ہے
کرائے پر الیکشن کے لیے تیار بیٹھی ہے
سیاست میں دمادم اپنا چمچہ مارتے جائیں
اگرچہ ہارتے جائیں، مگر للکارتے جائیں
صراحی سے گھڑا، روٹی سے دسترخوان لڑتا ہے
مسافر خود نہیں لڑتا، مگر سامان لڑتا ہے
سو، جنہیں الیکشن لڑنا ہے، وہ تو لڑ ہی رہے ہیں، مگر جن کے ووٹوں کے حصول کی خاطر لڑنا ہے، وہ بھی آپس میں لڑ مر رہے ہیں۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار لڑ رہے ہیں۔ لیڈر تو لیڈر، آپس میں پیروکار لڑ رہے ہیں۔ لڑتے لڑتے چیخ پکار بھی کر رہے ہیں:
دیکھ اے دنیا کہ ہم وہ با مروت لوگ ہیں
دشمنی ہنڈیا سے ہو تو لڑ مریں چمچوں کے ساتھ
الغرض ہمارے پورے ملک میں الیکشن کی بدولت ۔۔۔ ایک لڑائی ہے یارو، کیماڑی سے چترال تلک!
کل کراچی سے ایک صاحبِ علم و عرفان کا فون آیا۔ پوچھا:
’’تمہارے شہر کا کیا حال ہے؟‘‘
عرض کیا: ’’جو دل کا حال ہے، وہی دلّی کا حال ہے‘‘۔
شاید یہی جواب سننا چاہتے تھے۔ خوش ہوگئے۔ مگر لہجے میں مصنوعی خفگی بھر کر بولے:
’’یہی حال ہونا تھا۔ تم لوگ فلاں پیرِ فرتوت کے کرتوت اپنی اَدھ کھلی آنکھوں دیکھتے ہوئے بھی اُن کی گود میں جا بیٹھے‘‘۔
گود کا لفظ سن کر ہم بدک گئے۔ بدک کر اُٹھک گئے۔ یعنی بیٹھے سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُٹھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے (جس کا ہلنا ظاہر ہے کہ وہ سمعی فون پر دیکھ نہیں سکتے تھے، بصری گفتگو ہو رہی ہوتی تو ہم شاید اُن کا منہ بھی چڑا دیتے) ڈپٹ کر پوچھا:
’’اُن کی گود دیکھی بھی ہے آپ نے؟ ۔۔۔ گود نہیں ہے، پورا گنبدِ نیلوفری ہے ۔۔۔ اُن کی گود میں بھلا بیٹھ کون سکتا ہے؟ جو بیٹھے گا، ابھی اُس نے اپنی تشریف پوری طرح ٹکائی بھی نہیں ہوگی کہ ’’ارے ۔۔۔ ارے‘‘ کرتا ہوا پھسل کر دُور جا گرے گا‘‘۔
گھبرا کر وضاحت کرنے لگے:
’’ہم نے کب کہا کہ تم جاکر بیٹھے تو بیٹھے کے بیٹھے ہی رہ گئے۔ ارے میاں! پھسل تو چکے ہو۔ مگراب دیکھنا یہ ہے کہ ۔۔۔ گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا؟‘‘
تھوڑی دیر تک اُن سے لڑنے جھگڑنے کے بعد ہم نے فون بند کر دیا۔ ہم انہیں یہ بات باور کرانا چاہتے تھے، مگر کرا نہ پائے کہ۔۔۔ ’’الیکشن لڑنا کھیل نہیں ہے، لڑتے لڑتے لڑتے ہیں‘‘۔ یعنی اگر عید پر رُوٹھے ہوؤں کو منایا جاتا ہے، تو الیکشن پر مَنے ہوؤں کو رُوٹھوایا جاتا ہے۔
ایک دانا کا فرمانا ہے کہ اگر کسی ملک کے، کسی بستی کے یا کسی جماعت کے لوگوں میں مکمل اتحاد و اتفاق، کامل یکجہتی اور مثالی بھائی چارہ پایا جاتا ہو تو وہاں جا کر کسی نہ کسی طرح اُنھیں مروجہ انتخابی طور طریقوں کے مطابق الیکشن لڑادو۔ الیکشن لڑنے کی خاطر باہم وہ سر پُھٹوَّل اور ایسی ہاتھا پائی ہوگی کہ بھائی لوگوں کو (بلکہ ’’بھائی بھائی‘‘ لوگوں کو) صوفی تبسم یاد دِلا دیے جائیں گے:
لڑتے لڑتے ہو گئی گُم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
اوپر ضمیر جعفری صاحب کے اشعار میں کچھ باہمت اور باحوصلہ لوگوں کا ذکر آیا ہے جو:
اگرچہ ہارتے جائیں، مگر للکارتے جائیں
تو ’’ہارنے کے بعد للکارنے‘‘ کا عمل بھی انتخابی عمل ہی کا حصہ ہے۔ یہاں ہمیں پھر ایک دانا کا قول یاد آگیا جس کا فرمانا ہے کہ وطن عزیز میں الیکشن لڑا ہی اس لیے جاتا ہے کہ ہارنے والا فریق، للکارنے والا فریق بن کر، یعنی جیتنے والوں کو للکار للکار کر پُکارے کہ کہاں کہاں دھاندلی ہوئی ہے اور کتنے کتنے پنکچر لگائے گئے ہیں۔ کن کن نتائج پر ’’فرشتے‘‘ اثر انداز ہوئے ہیں اور کس کس حلقے میں پالا ’’خلائی مخلوق‘‘ سے پڑ گیا تھا۔ ویسے پچھلے دنوں امریکی ماہر ماحولیات (Ecologist) ڈاکٹر ایلس سلور (Dr. Ellis Silver) کی ایک تحقیق سماجی ذرائع ابلاغ پر گردش کرتی پھر رہی تھی جس کی رُو سے ہر انسان ’’خلائی مخلوق‘‘ ہی ہے، کیوں کہ یہ کسی اور سیارے سے لاکر سیارۂ زمین پر پٹخ دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے تو انتخابات میں مقابلہ ہی ’’خلائی مخلوق‘‘ کا ’’خلائی مخلوق‘‘ سے ہوتا ہے۔ پھر شکایت کس بات کی؟
حاصلِ کلام یہ کہ اے صاحبو! الیکشن لڑنا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے۔ یہ تو لڑائی مول لینا ہے اور پوری لڑائی مول لینا ہے۔