اب تو سب شریف ہیں کسی کو بھی آپ کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن گزشتہ دنوں پاک صاف پارٹی کے ایک لیڈر رضا ہارون ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے بڑی افسردگی کے ساتھ کراچی کے شہریوں کا مقدمہ پیش کررہے تھے۔ فرما رہے تھے یار اب اس بحث میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ کس نے کیا۔ لوگوں کی لاشیں گری ہیں، بچے بچیاں یتیم ہوئے ہیں، لوگ خوفزدہ ہیں ان کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہیے، کسی کو الزام دینے سے کیا فائدہ ہوگا، چوں کہ ہم میزبانوں میں سے تھے اس لیے اس وقت غصے پر قابو پایا۔ لیکن اب تو حد ہوگئی ہے سارے ’’شریف اور پاکباز‘‘ لوگ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں سب کو کراچی کی فکر ہے۔ جی تو چاہا کہ ان کو ٹوک کر کہا جائے بھائی رضا ہارون ۔۔۔
اتنی نہ بڑھا پاکئ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
آپ کے پیچھے بیٹھے ڈاکٹر فاروق ستار، دوسری ٹیبل پر بیٹھے میئر کراچی وسیم اختر اور آپ خود ذمے دار ہیں، جب آپ ایک تھے تو کس نے کراچی کو تباہ کیا، کس کے پیچھے لوگ کٹ مرنے کو تیار تھے، اگر 1992ء کا آپریشن ہوا تو حکومت اور فوج نے تو درجن دو درجن کارکن مارے ہوں گے وہ بھی فاروق دادا، فہیم کمانڈو، اور اسی طرح کے دوسرے لوگ لیکن حقیقی بننے کے بعد اس کے اور حقیقی والوں نے آپ کے لوگ مارے۔ آج تک حقیقی کے لوگ مارے جارہے ہیں کیوں کہ انہوں نے الطاف حسین سے غداری کی تھی۔ الطاف حسین سے غداری ایسا جرم تھا جو ریاست، دین اور تمام اخلاقیات سے بالاتر تھا، کسی کو نہیں بخشا جاتا تھا۔
اسی طرح کی ایک پاک صاف پارٹی (پی ایس پی) کے رہنما مصطفی کمال فرما رہے تھے کہ کراچی میں ایک شخص تھا الطاف حسین اس نے سارے قتل تو نہیں کیے وہ تو لندن سے فون کرتا تھا اور یہاں اس کے کارندے لوگوں کو قتل کرتے تھے، ہم نے وہ نیٹ ورک توڑ دیا ہے اب ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ ہم نے اس نیٹ ورک کو اپنے قابو میں کرلیا ہے۔ اب الطاف حسین کے فون کی نہیں ہمارے فون کی ضرورت ہوگی۔ لیکن مصطفی کمال صاحب 28 سال ’’را‘‘ کے ایجنٹ کے طور پر خدمات کے اعتراف کا کیا ہوگا۔ آپ فرمائیں ایسا کیوں کیا۔ یہ جتنے لوگ آج کل کراچی کے غم میں دبلے ہورہے ہیں یہ سب ایک انتظام ہے، سارا ملبہ الطاف حسین پر ڈالا اور یہ سارے لوگ پاک صاف ٹھیرے۔ یہی تو الطاف حسین کے مہرے تھے اس کے احکامات کی نگرانی کرتے تھے ان پر عملدرآمد کراتے تھے۔ حیرت ہے کہ عدالتوں کی آنکھوں کے سامنے سے یہ ساری خبریں گزرتی ہیں لیکن مفرور لوگوں کے وارنٹ جاری ہورہے ہیں موجود لوگوں کو نہیں پوچھا جارہا۔ یہاں تک کہ وارنٹ کے باوجود گرفتار نہ ہونے والے فاروق ستار کو انتخابات کی وجہ سے ضمانت کرانا پڑی، ورنہ پولیس یہی جواب دیتی تھی کہ فاروق ستار نہیں مل رہے۔ کراچی میں 12 مئی کو قتل عام ہوا وہ الطاف حسین نے کس کے ذریعے کروایا، کس نے کنٹینر سڑکوں پر رکھوائے، سرکاری بسوں کے ذریعے سڑکیں کس نے بند کرائیں، فائرنگ کے لیے اسلحہ کس نے دیا، سرکاری اسلحہ کس مشیر داخلہ کے حکم پر متحدہ کے کارکنوں میں تقسیم کیا گیا، الطاف حسین تو پاکستان میں نہیں تھے، بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کس نے جلادی، کیا حماد صدیقی اور بھولا کا اپنا فیصلہ تھا، کراچی میں ان کا کوئی سرپرست نہیں تھا، یہ جو 35 ہزار جوان مرگئے وہ خودبخود مر گئے۔ کراچی کے فنڈز الطاف حسین تک کون پہنچاتا تھا، گورنر ہاؤس کو 90 کا متبادل کس نے بنایا تھا۔ جب سب میٹھا میٹھا تھا تو سب مل کر حلوہ کھا رہے تھے اور اب۔۔۔ اب بھی حلوہ ہی کھارہے ہیں کیوں کہ سارا ملبہ الطاف حسین پر ڈال دیا گیا ہے، کڑوا کڑوا کی طرف لندن منہ کرکے تھوکا جارہا ہے لیکن ابھی تک کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی۔ کہ کل لندن سے پھر بھائیو۔۔۔ مہاجرو۔۔۔ والی تقریر شروع ہوسکتی ہے پھر یہی لوگ کہہ رہے ہوں گے بھائی غلطی ہوگئی۔ دراصل دباؤ میں تھے، ہمیں تو حیرت ہوئی ہے عوام پر کب تک بے وقوف بنتے رہیں گے، جن کے گھروں کے چراغ بجھے ہیں ان سے پوچھیں کہ کس کی وجہ سے لوگ مرے ہیں کیا جماعت اسلامی نے 35 ہزار لوگ مارے ہیں، کیا جے یو آئی نے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آگ لگائی تھی، کیا مدارس کے لوگوں نے 12 مئی کو قتل عام کیا تھا، مہاجر مہاجر کرکے مہاجر ہی کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا اور آج پھر مہاجر اتحاد کی باتیں کررہے ہیں، کوئی ان سے پوچھے کہ آج پاک صاف بنے ہو، سارا کیا دھرا تو تمہارا ہی ہے۔