لا پتا افراد۔ ایجنسیوں کے لیے پروانۂ برأت

381

پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار لا پتا افراد کا پتا لگانے کے لیے اپنے تئیں پوری کوشش کر رہے ہیں ۔ گزشتہ اتوار کو بھی انہوں نے کراچی رجسٹری میں عدالت لگائی جہاں متاثرین کی بہت بڑی تعداد جمع ہو گئی اور شدید احتجاج کیا ۔ تاہم عدالت کے عملے نے درخواستیں وصول کر کے سب کو عدالتی حدود میں بلالیا ۔ جناب ثاقب نثار نے کھلی عدالت میں سماعت کرتے ہوئے کہا کہ لا پتا افراد کے اہلخانہ کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ، اللہ کرے تمام گمشدہ افراد زندہ ہوں۔ اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ مجھے یقین ہے کہ انہیں میری ایجنسیوں نے نہیں اٹھایا ۔ یہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے تمام ایجنسیوں کے لیے پروانۂ برأت یا کلین چٹ ہے ۔ جناب ثاقب نثار کے پاس اس یقین کے ثبوت اور دلائل بھی ہوں گے اور انہوں نے صرف ایجنسیوں کے نمائندوں کے انکار پر اکتفا نہیں کیا ہو گا ۔ دوسری طرف عام تاثر یہ ہے کہ لا پتا افراد کے معاملے میں ایجنسیوں ہی کا عمل دخل ہے ۔ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے ۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں گمشدہ افراد کے اہل خانہ نے بتایا کہ سادہ لباس اوربا وردی اہل کاروں نے ان کے سامنے ان کے پیاروں کو اٹھایا اور لا پتا کر دیا ۔ یوں بھی ہوا ہے کہ کسی کو اٹھانے کے بعد گھر والوں کو نا معلوم نمبر سے ٹیلی فون موصول ہوا کہ خاموش ہو کر بیٹھ رہو ، بندہ کچھ دن میں واپس آ جائے گا اور اگر شور مچایا یا پولیس سے رابطہ کیا تو پھر واپسی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔جو واپس آئے ان کو اتنا خوف زدہ کردیا گیا تھا کہ انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ انہیں کس نے اٹھایا ، کہاں رکھا ۔ ایک عام دھمکی یہ ہے کہ حادثات تو ہوتے رہتے ہیں، تمہارے بچوں کو بھی کوئی حادثہ پیش آ سکتا ہے ۔ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ کل کو تم خود ٹیلی ویژن پر بیان دے رہے ہو گے کہ تم بھارت کے جاسوس ہو ۔ شاید یہ سب کہانیاں ہوں ، بے بنیاد حکایتیں ہوں ، ایجنسیوں کو بدنام کرنے کی مہم ہو لیکن ایسے واقعات بھی تو ہوئے ہیں جب دباؤ پڑنے پر گمشدہ شخص ابتر حالت میں سڑک کے کنارے یا کوڑے کے ڈھیر پر ملا ہو ۔ برسوں پہلے ایسے ہی ایک شخص کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس کی حالت دیکھ کر اس کی ماں بے ہوش ہو گئی تھی اور عدالت بھی حیران رہ گئی تھی کہ یہ ڈھانچہ نما شخص کون ہے؟ ایجنسیوں کے عقوبت خانے اور’’سیف ہاؤسز‘‘ بھی شاید کہانیاں ہی ہوں ۔ پولیس کے عقوبت خانے بھی دریافت ہو چکے ہیں ۔ کبھی ایم کیو ایم کی طرف سے دھمکیاں اور اس کے عقوبت خانے مشہور تھے مگر اب تو وہ خود عقوبت خانے میں ہے ۔ الطاف حسین کی سربراہی میں ایم کیو ایم تو ایک دہشت گرد جماعت تھی اور پیپلز پارٹی بھی اسی کے سکے میں جواب دیتی تھی لیکن ایجنسیاں تو سرکاری ادارے ہیں جن کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ دہشت پھیلانا ۔کئی صحافی بھی عقوبت خانوں کا مزہ چکھ چکے ہیں ۔ صحافی سلیم شہزاد کے قتل کا عقدہ بھی وا نہیں ہوا اور نہ کبھی ہو گا ۔ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ہم ملک کے لیے جان دیتے ہیں تو جان لے بھی سکتے ہیں ۔ یعنی عدالتیں تو بے کار ہی ہیں ۔ شاید اسی کو ماورائے عدالت قتل کہا جاتا ہے جس میں پولیس بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایجنسیوں نے کسی کونہیں اٹھایا تو کیا زمین نگل گئی یا آسمان نے اچک لیا ۔ انہیں تلاش کرنے اور بازیاب کرانے کی ذمے داری کس کی ہے؟ کیا ملک بھر میں پھیلی ہوئی ایجنسیوں کا یہ کام نہیں ہے؟ جناب چیف جسٹس نے ایجنسیوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’ لا پتا افراد کو کچھ ہو گیا ہے تو لواحقین کو بتا دیں تاکہ انہیں صبر آ جائے‘‘۔ اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود چیف جسٹس کو بھی شبہ ہے کہ لاپتا افراد کو کچھ ہو گیا ہے یعنی ممکن ہے کہ وہ مر چکے ہوں ۔ صبر کی تلقین تو تب ہی کی جاتی ہے ۔ لا پتا افراد کے لواحقین بھی یہی دہائی دیتے ہیں کہ ہمیں بتا دو ہمارے پیارے کہاں ہیں ۔ اگر ان کا کوئی سراغ مل جاتا ہے تو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ابھی زندہ ہیں ۔جناب چیف جسٹس نے تمام اداروں کو بری کرنے کے بعد حکم دیا ہے کہ سب مل کر لا پتا شہریوں کی بازیابی کے لیے خصوصی سیل قائم کریں ۔عدالت عظمیٰ کے لیے شاید یہ ممکن نہ ہو کہ عقوبت خانوں اور سیف ہاؤسز کا جائزہ لے لیکن یہ اطمینان ہے کہ جناب چیف جسٹس اپنی سی کوشش کر رہے ہیں ۔ شاید لوگوں کو لا پتا کرنے کا سلسلہ کچھ تھم جائے۔