میرے تمام چارہ گر، گھر میں جو کچھ تھا چر گئے

757

یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب زمانے اور میڈیکل سائنس نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی۔ نئے نئے امراض ایجاد ہوئے تھے نہ ان کی الگ الگ دُکانیں سجائے ہوئے پیشہ ور ماہرین۔ ڈاکٹروں اور مریضوں، دونوں کے قدم ابھی مادّی خوشحالی نے نہیں چومے تھے۔ مریض مہنگے تھے نہ علاج مہنگا تھا۔ مہنگے سے مہنگے مرض کا علاج بس یوں ہی سیدھا سادہ سا ہوجاتا تھا۔ حکیمانہ اور غریبانہ۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پیچیدہ امراض کے مریض بھی بڑی سادگی سے صحت یاب ہوجاتے تھے۔ کیا کہیں کہ وہ کتنے سادہ لوگ تھے جو الٹرا ساؤنڈ، ایکسرے، بلڈ ٹسٹ، بلڈ کلچر، یورین ٹسٹ، اسٹول ٹسٹ، ای سی جی، ایم آر آئی، سی ٹی اسکین، بایوپسی اور برانکو اسکوپی کرائے بغیر ہی اپنے انتہائی پیچیدہ سے پیچیدہ مرض کی تشخیص طبیب کے ہاتھ میں اپنی نبض تھماکر، کروا بیٹھتے تھے۔ اطباء بھی شاید سادہ اور قناعت پسند ہی تھے۔ اپنی آمدنی کا واحد ذریعہ محض مریض کی نبض دیکھنے ہی کو سمجھ کر پوری پوری زندگی بسر کرجاتے تھے۔ یہ نباض حکماء نبض چھوکر گویا چھومنتر کردیتے تھے۔ مریض کو یہ بتا کر حیران کردیتے تھے کہ اُس نے گزشتہ شب آلو کی بھجیا کھائی تھی اور آج صبح مولی کا پراٹھا۔ ہمارے یہ اطباء کبھی مریض کا پیٹ گدگداکر، کبھی اُس کی زبان (اُسی کے منہ سے) باہر لٹکوا کر اور کبھی اُس کا سینہ ٹھونک بجا کر مرض جانچ لیا کرتے تھے اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بالکل ٹھیک ٹھیک جانچتے تھے۔ بہت ہوا تو (مریض کا) قارورہ منگا کر دیکھ لیا۔ وہ بھی محض آنکھوں سے۔ قارورہ وہی چیز ہے جسے موجودہ میڈیکل سائنس ’’یورین‘‘ کہتی ہے، اور اس کا ٹسٹ بھی لیتی ہے۔ ابھی اس مقصد کے لیے بڑی بڑی لیبارٹریوں کا ’’زنجیری سلسلہ‘‘ شہر بھر اور ملک بھر میں پھیلانے کی تجارت نے فروغ نہیں پایا تھا۔ ابھی تو ٹونٹی (اسٹیتھسکوپ) مریض کے سینے اور اپنے کان سے لگاکر اطباء نے اپنی قوتِ سماعت ٹسٹ کرنے کا کام بھی شروع نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود محض نبض شناسی ہی کے ذریعہ سے منکشف ہونے والے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات ہماری طبی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہیں کہ سائنسی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مگر کیا نبض شناسی بھی ایک سائنس نہیں ہے؟ یہ تو ایک علمِ دریاؤ ہے۔ پَر اب اس کے معلم رہے نہ طالب علم۔ اب جو طریقۂ تشخیص اور طریقۂ علاج ہے اُس سے گزرنے والا ثاقب لکھنوی کا یہ شعر پڑھ کرجاں سے بھی گزر جاتا ہے کہ:
بڑھ گئی اور جراحت مرے دِل کی ثاقبؔ
زخم اتنا تو نہ تھا چارہ گری سے پہلے
ان سیدھے سادے طریقوں کا سب سے بڑا (تجارتی) نقصان یہ تھا کہ مریض ایک ہی طبیب کے ہاتھوں شفایاب ہوجاتا تھا۔ اب ماہرین کے پورے بورڈ کو نان نفقہ فراہم کرنے کے بعد ’’کیفر امراض‘‘ کو پہنچتا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ جب ایک طبیب ایک مریض کا علاج کر رہا ہوتا تو باقی بیٹھے منہ دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اب ایک ہی مریض کو سارے طبیب مل کرآپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ یہ ناک، کان، حلق اور گلے کا ڈاکٹر ہے۔ یہ صرف دو آنکھوں کا ڈاکٹر ہے اور یہ بتیس دانتوں کا۔ یہ دل کا ڈاکٹر ہے۔ یہ دماغ کا ڈاکٹر ہے۔ یہ گردے کا ڈاکٹر ہے۔ یہ کلیجے (یا کلیجی) کا ڈاکٹر ہے۔ یہ پھیپھڑوں کا ڈاکٹر ہے۔ یہ معدے کا ڈاکٹر ہے۔ یہ اعصاب کا ڈاکٹر ہے اور یہ (مریض کے) توہمات کا۔ یہ بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر ہے۔ یہ چیر پھاڑ کرنے والا ڈاکٹر ہے۔ یہ مرہم پٹی کرنے ولا ڈاکٹر ہے اور یہ چرکا لگانے والا۔ یوں سب کا بھلا ہو رہا ہے۔ رہا مریض تو وہ اپنے طفیل اتنے بہت سے ’’طفیلی‘‘ لوگوں کا بھلا ہوتے دیکھ کر بھلا اپنا بھلا کب چاہ سکتا ہے؟ دوا خوری کی نوبت آنے سے پہلے، ٹسٹ ہی ٹسٹ میں اکثر مریض جنت کی ہوا خوری کو نکل جاتے ہیں۔یوں کام تمام ہوجاتا ہے۔ مرض رہتا ہے، نہ مریض۔ مریض صاحبان غالباً یہ سوچ کر (اورکفن اوڑھ کر) سو رہتے ہیں کہ:
درد منت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا
بات یہ ہے کہ ’’منت کش دوا‘‘ ہونے سے پہلے اتنے ’’ماہرین امراض‘‘ کی منتیں اور سماجتیں کرنی پڑتی ہیں ۔۔۔ اُن سے اپائنٹمنٹ لینے کے لیے ۔۔۔ کہ مریض کو منت، سماجت ہی سے فرصت نہیں ملتی۔ وہ جانتا ہے کہ مسیحاؤں کو فرصت ملے یا نہ ملے۔۔۔ ’’فرصتِ زندگی بہت کم ہے‘‘ ۔۔۔ سو ’’منت کش دوا‘‘ ہونے کی نوبتوں تک خوش قسمت مریض ہی پہنچتے ہیں۔ اکثر مریض یہ مصرع پڑھتے ہوئے مارے حیرت کے رحلت کر جاتے ہیں کہ ۔۔۔ ’’یہ کیسے مسیحا ہیں دوا کیوں نہیں دیتے؟‘‘
جو مریض ٹسٹ ہی ٹسٹ میں خرچ ہوجاتے ہیں، اُن سے تو ڈاکٹروں کے ائر کنڈیشنڈ کمروں کا خرچہ بھی نہیں نکل پاتا۔ مگر جو ہر طرح کے ٹسٹ سے جاں بَر ہوپاتے ہیں، وہ بھی دواؤں کی خریداری کے دوران میں کھیت ہو رہتے ہیں۔ اکثر اوقات مریض کے علاج کا خرچہ اُٹھاتے اُٹھاتے اُس کے تیمار دار ہی غفر لہٗ ہوجاتے ہیں۔ مریض تلملاتا رہ جاتا ہے کہ بیمار تو میں پڑا تھا، میرے مرض سے فائدہ اُٹھا کر انتقال دوسرے کر گئے۔ قیدِ حیات و بندِ غم دونوں سے نجات پا گئے۔شاید اسی ڈر سیتمنا کی تھی چچا غالبؔ نے، کہ:
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
صاحبو! اب ٹیکے بھی بہت لگنے لگے ہیں۔ نہ صرف مریضوں کو بلکہ تیمارداروں کو بھی۔ پہلے تو فقط ایک ٹیکا لگا کرتا تھا۔ ’’نظربد کا ٹیکا‘‘۔ وہ بھی بس کہیں پیشانی، رُخسار یا ٹھوڑی پر لگا دیا جاتا تھا۔ مامتا بھری مائیں، نظربد سے حفاظت کے لیے، اپنے یہ خود ساختہ حفاظتی ٹیکے کاجل سے اپنے پوت یا سپوت کے منہ پر کسی بھی جگہ پوت دیتی تھیں۔ چوں کہ ’’اچھی صورتیں‘‘ نظربد کا شکار زیادہ ہوتی ہیں، چناں چہ قدرت ازخود حسینوں کے رُخ یا رُخسار پر ایک ’’حفاظتی ٹیکا‘‘ لگا دیتی ہے۔ مگر شاعرِ آوارہ نظر کی نظریں اسی ٹیکے پر ٹِک کر رہ جاتی ہیں۔ اور اِس نکتۂ حسن پر غور یا تپسیا کرتے کرتے ایک دِن اچانک وہ پکار اُٹھتا ہے کہ:
اب میں سمجھا تِرے رُخسار پہ تِل کا مطلب
دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے
بعض لوگ ’’کلنک کا ٹیکا‘‘ لگا کر یا لگوا کر بیٹھ رہتے تھے۔ (یہ ٹیکا تو شاید اپنے منہ پر سیاسی لوگ اب بھی لگوا لیتے ہیں)۔ مگر جب سے ’’کلینک کا ٹیکا‘‘ ایجاد ہوا ہے، تب سے کوئی بھی کسی قسم کا ’’ٹیکا لگانے‘‘ میں عار محسوس کرتا ہے نہ لگوانے میں۔ بچوں کے چہروں پر لگائے جانے والے ’’نظربد‘‘ کے ٹیکوں کو جدید میڈیکل سائنس کے ’’حفاظتی ٹیکوں‘‘ کی نظر لگ گئی ہے۔ سو اب نظر بد کے ٹیکے کہیں نظر نہیں آتے۔